قصور لاہور سے 55 کلومیٹر فاصلے پر واقع ہے اس کا رقبہ 3995 کلومیٹر اور آبادی تقریبا 32 لاکھ ہے 2015 سے پہلے تک قصور پاکستان کا ایک انتہائی پر امن ترین شہر تھا
ضلع قصور کے قبرستانوں میں سینکڑوں شہداء پاک آرمی و شہداء پولیس کی قبریں موجود ہیں جو کہ اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ یہاں کے باشندے ار ض وطن اور اسلام کی خاطر جان دینے سے نہیں ڈرتے پاکستان کے نامور اور جید علماء کرام کی بہت بڑی تعداد بھی قصور سے ہی ہے اس کے باسیوں کو شرف حاصل ہے کہ پاک انڈیا جنگوں میں پاک آرمی کیساتھ مل کر انڈیا کے کھیم کرن شہر سے مال غنیمت حاصل کیا اور تحریک آزادی کے مجاھد شاہ اسماعیل شہید کی معاونت کیلئے قصور کے مجاھدین کا دستہ بھی ان کیساتھ محاذ حق و باطل پر ڈٹا ہوا تھا
اس شہر میں آج دن تک کوئی بم و خودکش دھماکہ اور تخریب کاری نہیں ہوئی جس کا سہرا قصور پولیس،ستلج رینجرز،پاک آرمی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سر ہے حالانکہ یہ شہر دشمن مُلک انڈیا کے بارڈر کے بلکل قریب واقع ہے مگر پھر بفضل تعالی اور اور ان اداروں کی محنت سے امن و امان قائم ہے
مشہور صوفی بزرگ بلہے شاہ کی نگری میں پورے پاکستان سے لوگ آتے ہیں جو کہ دربار پر حاضری کے بعد گنڈہ سنگھ بارڈر قصور پر پریڈ بھی دیکھتے ہیں اس پرامن شہر کو اچانک 12 اگست 2015 میں ایک دم پوری دنیا میں شدید بدنامی کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سانحہ حسین خانوالا بنا جس میں 17 ملزمان کی طرف سے 200 سے زائد کم سن بچوں کیساتھ جنسی بدفعلی کے بعد ان کی پورن گرافی بنا کر اربوں روپیہ کمایا گیا اطلاع ملتے ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے اور ملزمان کو حراست میں لے کر تفتیش کا آغاز کیا مگر بد قسمتی سے چند پولیس و با اثر افراد کی جانب سے بیشتر بچوں کے والدین کو ڈرا دھمکا کر کیس واپس لینے پر مجبور کر دیا گیا جس سے کیس کمزور ہو گیا جس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے 10 ملزمان بری ہوئے پھر مذید 4 اب صرف 3 ملزمان عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں
4 جنوری 2018 کو قصور شہر سے سات سالہ ننھی زینب گم ہوئی جس کے والدین ادائیگی عمرہ کیلئے گئے ہوئے تھے 9 جنوری کو معصوم زینب کی لاش اس کے گھر کے قریب کچرے کے ڈھیر سے ملی پولیس کی ابتدائی تحقیق سے معلوم ہوا کہ زینب کیساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے جس پر پورے پاکستان اور خاص طور پر قصور میں پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے ڈی پی او کو تبدیل کرکے زاہد نواز مروت کو ڈی پی او قصور تعینات کیا گیا اور تفتیش کا دائرہ کار وسیع کیا گیا جس میں 22 جنوری کو زینب کے محلے دار عمران نقشبندی کو تحویل میں لیا گیا جس کا ڈی این اے میچ کر گیا ملزم نے زینب کے قتل کیساتھ مذید 8 بچوں سے یہی قبیح حرکت کا اقرار کیا جس پر پورے ملک سے لوگوں اور ورثاء نے سرعام ملزم کی پھانسی کا مطالبہ کیا 12 فروری کو ملزم پر فرد جرم عائد کر دی گئی اور 15 فروری کو سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کر لیا گیا اسی سال 12 جون کو عدالت نے ملزم کو سزائے موت سنائی مگر سزائے موت عوامی مطالبے کے مطابق نا تھی
جون 2019 میں قصور کی تحصیل چونیاں میں 4 بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں جنہیں جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا جس پر ایک بار پھر لوگوں میں شدید غم و غصہ دیکھنے میں آیا اور اس شہر کی ایک بار پھر دنیا میں بدنامی ہوئی
مختصراً ملزم سہیل کو گرفتار کر لیا گیا جس نے چاروں بچوں کو قتل کرنے کا اعتراف کیا اور انکشاف کیا کے اس کیساتھ بھی بچپن میں جنسی زیادتی ہوتی رہی ہے اس سے قبل یہی ملزم 2011 میں بچے سے جنسی زیادتی کرتے پکڑا گیا تھا جس پر اسے عدالت نے 5 سال کی سزا سنائی تھی مگر وہ ڈیڑھ سال بعد ہی رہا ہو گیا تھا
چند دن قبل عید الفطر کے روز قصور کے نواحی قصبے کھڈیاں خاص میں ایک حاصر سروس پولیس اہلکار نے 18 سالہ حافظ قرآن نوجوان کو اس کے باپ اور بھائی کے سامنے اس لئے گولی مار کر قتل کر دیا کہ متوفی حافظ قرآن سمیع الرحمن ملزم معصوم علی کی جانب سے بدفعلی کرنے پر راضی نا تھا مگر ملزم بدفعلی کرنے پر بضد تھا اس پر ایک بار پھر شدید عوامی ردعمل سامنے آیا جس پر قصور پولیس نے چند گھنٹوں بعد ہی ملزم معصوم کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کر لیا
ان سارے واقعات کے تناظر میں دیکھتے ہیں کہ اصل قصور وار کون ہے کہ جس کی بدولت ایک ملزم پکڑا جاتا ہے تو دوسرا ملزم اسی بد عمل کی جرات کرتا ہے
ایک اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں روزانہ 11 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان میں سے 31 فیصد کو زیادتی کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے
انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ابتک پاکستان میں 112 جنسی زیادتی کے مجرموں کو سزا ملی ہے جن میں سے صرف 25 کو سزائے موت،11 کو عمر قید جبکہ باقی دیگر ملزمان کو انتہائی کم سزائیں ہوئی ہیں
پاکستان کی دفعہ 376 اور 377 کے تحت بچوں سے جنسی زیادتی کی کم سے کم سزا 10 سال اور زیادہ سے زیادہ عمر قید ہے سزائے موت جنسی زیادتی کیساتھ موت کی صورت میں ہو گی بصورت دیگر 10 سے 25 سال قید ہی ہے جس کی بدولت مجرم جرآت پاتے ہیں اور اس گھناؤنے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں
پاکستان میں بچوں سے بڑھتی ہوئی جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات میں ہماری عدلیہ بھی قصور وار ہے جو اپنی عدالت کی توہین پر تو فوری ایکشن لیتے ہوئے ملزم کو فوری سزا دیتی ہے جبکہ ویڈیو ثبوت پیش کئے جانے کے باوجود بھی کیس کی سماعت مہینوں بعض مرتبہ سالوں تک چلتی ہے جس سے غریب مدعی بدظن ہو کر پیروی چھوڑ دیتے ہیں
حالانکہ قتل شد بندہ ایک دفعہ مرتا ہے مگر جنسی زیادتی کا شکار ہونے والا بچہ اور اس کے لواحقین پل پل مرتے ہیں مگر پھر بھی مجرم دو چار سالوں میں رہا ہو کر آجاتے ہیں دوسرا کردار پولیس و با اثر افراد کا ہے جو والدین کو ڈرا دھمکا کر کیس واپس لینے پر مجبور کرتے ہیں جس سے جنسی درندگی کے پجاریوں کو مذید ہمت ملتی ہے اس کے علاوہ چائلڈ پورن گرافی مافیا بھی ہے جو کروڑوں روپیہ اس بد عمل سے کما کر لاکھوں بطور رشوت دے کر بچ جاتا ہے
اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں انصاف پیسوں کے علاوہ کم ہی ملتا ہے
ہم مسلمان ہیں اور ہماری بقاء و سلامتی اسلامی نظام میں ہی ہے اسلام میں زانی کی سزا سنگسار اور رجم مقرر گئی ہے جبکہ قتل کے بدلے قتل کی سزا ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی چائلڈ پورن گرافی اور بعد از جنسی زیادتی قتل کو روکا جائے تو ہمیں اللہ کی نافذ کردہ حدود پر عمل کرنا ہوگا اپنے بنائے گئے 10 سالہ سزا کے قانون کو بدلنا ہوگا نیز جاگیرداری نظام کے سامنے ڈٹنا ہو گا کیونکہ یہی ان بے قصوروں کے اصل قصور وار ہیں
اس کے علاوہ سرحد پار سے اس پرامن شہر کے امن کو برباد کروانے کیلئے اندر سے کچھ بے ضمیروں کو خرید کر بچوں سے جنسی زیادتی کروا کر اس شہر کے امن کو برباد کروانے کا امکان بھی ہو سکتا ہے

Shares: