کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہے اک ترے نہ ہونے سے

اشکوں میں پرو کے اس کی یادیں پانی پہ کتاب لکھ رہا ہوں
0
48
poet

کچھ عجب بوئے نفس آتی ہے دیواروں سے
ہائے زنداں میں بھی کیا لوگ تھے ہم سے پہلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن عابدی

اردو کے نامور شاعر حسن عابدی 7جولائی 1929ء کو ظفرآباد ضلع جونپور میں پیدا ہوئے ان کا اصل نام سید حسن عسکری عابدی تھا۔ انہوں نے اعظم گڑھ اور الہ آباد میں تعلیم حاصل کی تقسیم ہند کے بعد وہ 1948ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے جہاں انہوں نے پہلے لاہور اور پھر کراچی میں اقامت اختیار کی۔

لاہور کے قیام کے دوران 1955ء میں انہوں نے روزنامہ آفاق سے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا بعدازاں وہ فیض احمد فیض کی ادارت میں نکلنے والے مشہور جریدے ’’ لیل و نہار‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔ لیل و نہار کے بند ہونے کے بعد وہ کراچی چلےگئے جہاں انہوں نے روزنامہ مشرق اور اخبار خواتین میں خدمات انجام دیں۔ بعدازاں انہوں نے روزنامہ ڈان میں ادبی اور ثقافتی کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو ان کی وفات تک جاری رہا۔

حسن عابدی کی تصانیف میں ’’کاغذ کی کشتی اور دوسری نظمیں‘‘،’’ نوشت نے‘‘، ’’جریدہ اور فرار ہونا حروف کا‘‘ شامل ہیں۔ ان کی وفات سے کچھہ عرصہ قبل ان کی یادداشتیں ’’جنوں میں جتنی بھی گزری‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی تھیں۔

حسن عابدی ایک اچھے مترجم بھی تھے۔ انہوں نے مشہور دانشور ڈاکٹر اقبال احمد کے 62 مضامین کا اردو ترجمہ ’’اقبال احمد کے منتخب مضامین‘‘ کے نام سے کیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کی ترجمہ شدہ ایک کتاب ’’بھارت کا بحران ‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی تھی۔

حسن عابدی نے بچوں کے لئے بھی بہت سی کہانیاں اور نظمیں تحریر کیں۔ وہ کراچی پریس کلب کے صدر بھی رہے۔ وہ ایک کٹر ترقی پسند ادیب تھے اور اپنی اس کمٹمنٹ کی وجہ سے انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑی تھیں۔ اسی دور میں ان کا کہا ہوا یہ شعر ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگیا،حسن عابدی کا 6 ستمبر 2005ء کو کراچی میں انتقال ہوا۔

کچھ عجب بوئے نفس آتی ہے دیواروں سے
ہائے زنداں میں بھی کیا لوگ تھے ہم سے پہلے

حسن عابدی کی شاعری سے کچھ انتخاب قارئین کی نذر

اے خدا انسان کی تقسیم در تقسیم دیکھ
پارساؤں دیوتاؤں قاتلوں کے درمیاں

اشکوں میں پرو کے اس کی یادیں
پانی پہ کتاب لکھ رہا ہوں

دل کی دہلیز پہ جب شام کا سایہ اترا
افق درد سے سینے میں اجالا اترا

دنیا کہاں تھی پاس وراثت کے ضمن میں
اک دین تھا سو اس پہ لٹائے ہوئے تو ہیں

کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہے اک ترے نہ ہونے سے
ورنہ ایسی باتوں پر کون ہاتھ ملتا ہے

سب امیدیں مرے آشوب تمنا تک تھیں
بستیاں ہو گئیں غرقاب تو دریا اترا

شہر نا پرساں میں کچھہ اپنا پتہ ملتا نہیں
بام و در روشن ہیں لیکن راستہ ملتا نہیں

تشنہ کاموں کو یہاں کون سبو دیتا ہے
گل کو بھی ہاتھہ لگاؤ تو لہو دیتا ہے

یاد یاراں دل میں آئی ہوک بن کر رہ گئی
جیسے اک زخمی پرندہ جس کے پر ٹوٹے ہوئے

Leave a reply