تو سیدھے راستے سے مل سکے تو مل مجھ سے
میں باپ بھائی کی پگڑی نہیں اچھالوں گی

ثمینہ ثاقب 2 اگست 1994 کو خانپورہ کٹورہ میں پیدا ہوئیں-

کیسا پیارا شخص تھا اور میں خواب میں رکھ کر بھول گئی
جیسے کاغذ کی کشتی گرداب میں رکھ کر بھول گئی

روشن روشن موتی جیسا صاف سجیلا پانی تھا
جانے کون تھی چاند کو جو تالاب میں رکھ کر بھول گئی

جب بھی اس پہ کھلنا چاہا گال حیا سے لال ہوئے
اس کو پانے کی خواہش آداب میں رکھ کر بھول گئی

سوچ کے دھاگے سے بن کر کچھ سپنے پھینکے کاغذ پر
کیا کرنا اس خواب کا جو اعصاب میں رکھ کر بھول گئی

صبح سویرے ماں نے پکارا بھاگی بھاگی گھر پہنچی
اک جوتا تھا پیر میں دوجا خواب میں رکھ کر بھول گئی

بہہ گیا ہوگا پانی میں اب جھیل میں اس کو ڈھونڈوں گی
اک چہرہ جو اشکوں کے سیلاب میں رکھ کر بھول گئی

اس سے ملنے جانا تھا میں پل کے رستے مل آئی
کچا سوہنی تیرا گھڑا میں چناب میں رکھ کر بھول گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس لئے بھی نہیں چھوڑتا تھا ہاتھ میرا
اسے بھی اپنے عزادار سے محبت تھی

شریعت گر اجازت دے ، اداسی
تجھے عید پر قربان کر دوں

ادھڑے ہوئے ہیں خواب مرمت کروں گی میں
سیکھا ہے میں نے یہ بھی ہنر ماں کے ہاتھ سے

سمے جیسے گزرتا ہی نہیں ہے
کوئی دل سے اترتا ہی نہیں ہے

گزشتہ دور کی لیلی سے مختلف ہوں میں
کہ میں نے عشق کمایا ہے گھر بسایا ہے

ثمینہ ثاقب

Shares: