خلائی ادارے ،سائنسدانوں کی بازی، تحریر:عفیفہ راؤ

0
117

کیسے امریکی خلائی ادارے ناسا، یورپی خلائی ادارے ایسا اور کینیڈین خلائی ادارے سی ایس اے نے دس ارب ڈالر لگا کر دنیا کی اب تک کی سب سے بڑی خلائی دوربین بنا کر اس کو خلا میں ایک اہم مشن پر روانہ کیا ہے۔ اس دوربین کا نام
James Webb Space Telescopeرکھا گیا ہے۔ اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ان تینوں اداروں میں کام کرنے والے سائنسدانوں کو اس منصوبے کو مکمل کرنے میں 30سال کاعرصہ لگا ہے اور اسے اکیسویں صدی کے سب سے بڑے سائنسی منصوبوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔یہ اسپیس ٹیلی سکوپ orbitمیں اب تک بھیجے جانے والے سب سے بڑے فلکیاتی آئینے کا استعمال کرے گی جس کا قطر ساڑھے چھ میٹر ہے۔ اور دوربین کا یہ مرکزی آئینہ 18 آئینوں کو آپس میں جوڑ کر بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں حساس ترین کیمرے بھی نصب کئے گئے ہیں۔ اس کا وزن چودہ ہزار پاؤنڈ ہے اور یہ فلکیاتی آئینہ اتنا بڑا ہے کہ اسے مکمل طور پر کھلنے میں دو ہفتے تک کا وقت لگے گا۔ یہ زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہو گی جو زمین کے چاند سے فاصلے سے بھی چار گنا زیادہ ہے۔

اس ٹیلی سکوپ کو French Guianaمیں یورپین اسپیس ایجنسی کے بیس سے صبح 7:30 بجے زمین سے چھوڑا گیا ہے جو
Ariane 5 rocketسے لیس ہے۔ خلا تک پہنچنے کے لیے جیمز ویب نے پہلے ستائیس منٹ کی ایک طویل فلائٹ کی جو ایک کنٹرولڈ دھماکے جیسی تھی۔ جس کے بعد یہ راکٹ سے الگ ہو گئی۔ لیکن اصل کام اس کے راکٹ سے الگ ہونے کے بعد شروع ہوا ہے۔ کیونکہ اس دوربین کو بنانے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ راکٹ سے الگ ہونے کے بعد اس دوربین کو 344
ایسے کڑے لمحات سے گزرنا ہو گا جو اس کی صلاحیت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اور یہ ہی اس مشن میں کھیلے جانے والا اصل جوا ہے کیونکہ اگر ان لمحات میں سے کسی ایک میں بھی کوئی معمولی سی غلطی بھی ہوئی تو سمجھو کہ کھیل ختم۔۔۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ سائنسدانوں کو اتنا پیسہ لگا کر اتنا بڑا خطرہ مول لینے کی کیا ضروت تھی؟دراصل اس دوربین سے پہلے ناسا نے1990میں Habal telescopeکو خلا میں بھیجا تھا۔ اور ہبل دنیا کی وہ پہلی ٹیلی سکوپ تھی جس کو خلاء میں بھیجا گیا۔ اس کی وجہ سے سائنسدانوں کو اتنی اہم معلومات ملیں کہ انہوں نے ہبل کو دریافتوں کی ایک مشین کا نام دیا۔
ہبل کے خلا میں جانے کے بعد ہی سائنسدانوں کو یہ علم ہوا تھا کہ ہماری کائنات کتنے ارب سال پرانی ہے۔ اور آج سب جانتے ہیں کہ ہماری کائنات کی عمر تیرہ اعشاریہ آٹھ ارب سال ہے۔اسی دوربین کی وجہ سے یہ علم ہو سکا کہ کائنات نہ صرف پھیل رہی ہے بلکہ اس کے پھیلنے کی رفتار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور اس دریافت پر نوبیل انعام بھی دیا گیا تھا۔ہبل ٹیلی سکوپ سے ہی کائنات میں موجود کہکشاؤں کے درمیان انتہائی بڑے بلیک ہولز کی موجودگی کے ثبوت ملے تھے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم ہو سکا کہ Big bangکے چند کروڑ سال بعد ہماری کائنات کس طرح کی تھی۔اور آپ کو یہ جان کر بھی حیرانی ہوگی کہ ہبل ٹیلی سکوپ کو خلا میں بھیجے جانے سے پہلے سائنسدان سولر سسٹم سے باہر موجود کسی ایک بھی سیارے یاexoplanetکے بارے میں نہیں جانتے تھے۔

اس لئے ہبل کی وجہ سے سائنسدانوں کو یہ یقین ہو گیا کہ اگر انہیں اس کائنات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا ہے تو اس کے لئے ان کے پاس جتنی اعلی ٹیلی سکوپ ہو گی اتنی اچھی انفورمیشن ملے گی۔اس لئے ابھی سائنسدانوں کے پاس دس یا بیس سال تک کا مزید وقت ہونے کے باوجود کہ وہ ہبل ٹیلی سکوپ سے ہی بہت سی اہم معلومات جمع کر سکتے تھے۔ انہوں نے دس ارب ڈالرز لگا کر James Webb Space Telescopeکو خلا میں بھیجا گیا۔ کیونکہ اس نئی دوربین کا فلکیاتی آئینہ ہبل سے کئی گنا بڑا ہے۔ اس میں روشنی کو جمع کرنے کی بھی زیادہ صلاحیت موجود ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہبل کے مقابلے یہ ٹیلی سکوپ وقت میں زیادہ پیچھے تک سفر کر سکتی ہے۔ ویسے بھی ہبل زمین کے گرد قریبی مدار میں موجود تھی اور یہ ٹیلی سکوپ زمین سے زیادہ فاصلے ہر اور دوسری کہکشاوں کے قریب ہوگی اس لئے اس کے زریعے اور بھی زیادہ اہم معلومات مل سکیں گی اب James Webb Space Telescopeجو کہ ہبل ٹیلی سکوپ سے دس گنا زیادہ حساس ہے تو یہ دوربین یہ بھی دیکھنے کے قابل ہو گی کہ ہماری کائنات میں ابتدائی کہکشائیں کیسے وجود میں آئیں۔سائنسدانوں کو امید ہے کہ
James Webb Space Telescopeکی مدد سے وہ خلا میں ان ستاروں کو بھی ڈھونڈ پائیں گے جو ساڑھے تیرہ ارب سال پہلے کائنات میں سب سے پہلے روشن ہوئے۔اس ٹیلی سکوپ میں یہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ یہ زمین سے کہیں دور موجود سیاروں کے ماحول اور وہاں موجود گیسوں کی جانچ کے ذریعے زندگی کے شواہد تلاش کر سکے گی۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم کیا جا سکے گا کہ دوسرے سیاروں کے ماحول میں کس قسم کے مالیکیول موجود ہیں۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دوربین کہکشاں میں رہنے کے قابل سیاروں کی تلاش میں ایک بہت بڑا قدم ثابت ہو گی۔

دراصل سائنسدان جان ہی چکے ہیں کہ ہم انسان ایک ستارے کی باقیات سے وجود میں آئے جو اربوں برس پہلے پھٹ گیا تھا۔ اس لئے اب وہ ان باقیات کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں کہ جس طرح الگ ہونے کے بعد زمین پر زندگی کا آغاز ہوا تو باقی ستاروں کے ساتھ کیا ہوا الگ ہونے کے بعد ان کے کیا حالات ہیں۔یعنی اس دوربین کی مدد سے سائنسدان کائنات کے بارے میں وہ سب جان سکیں گے جو شاید ابھی انہوں نے سوچا بھی نہیں ہے اس لئے آنے والا وقت اب Space science
سے متعلق بہت حیران کن ہونے والا ہے۔

لیکن اس کے لئے تھوڑا مزید انتظار بھی کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس ٹیلی سکوپ کو مکمل طور پر آپریشنل ہونے اور اس کی مدد سے پہلی تصاویر دیکھنے میں چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔ کیونکہ اسے کھولنے کا نظام انتہائی پیچیدہ ہے۔ ایک بار کھلنے کے بعد اسے ٹھنڈا ہونے اور اس میں موجود فلکیاتی آئینوں کو ترتیب میں آنے اور تمام آلات کو آن کرنے میں کئی مہینوں کا وقت لگے گا۔ اس لئے امید یہ کی جا رہی ہے کہ 2022 کے موسم گرما میں ہی سائنسدان پہلی تصاویر حاصل کر سکیں گے۔لیکن آخر میں ایک بار پھر میں آپ کو بتا دوں کہ یہ Space science کا ایک جوا ہے اور بہت ہیExpensive and complicated
قسم کا جوا ہے کیونکہ یہ ٹیلی سکوپ کسی ٹینس کورٹ جتنی بڑی ہے اور اس کا مکمل طور پر کھل کر اپنے آپ کو پھیلانا خلائی تاریخ میں اب تک کا سب سے مشکل کام ہو گا۔ ایسے 300 سے زیادہ لمحات ہوں گے جب کچھ بھی غلط ہوا تو کھیل تمام ہو جائے گا۔ لیکن آپ کو پتا ہے کہ ایسے کاموں میں تو پھر زیادہ خطرے کا مطلب ہی زیادہ فائدہ ہے۔اور اگر یہ کامیاب ہو گئی تو پھر یہ جاننا مشکل نہیں رہے گا کہ یہ کائنات کیسے شروع ہوئی اور کیا ہم اس میں اکیلے ہیں؟اور پھر سائنسدانوں کی یہ بازی جیتی ہوئی تصور کی جائے گی۔

Leave a reply