5 اگست 2019—دنیا کے لیے ایک معمول کا دن، لیکن کشمیریوں کے لیے تاریخ کا ایک اور زخم، ایک اور سانحہ۔ اس روز بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت، آرٹیکل 370 اور 35A، کو ختم کر کے نہ صرف کشمیریوں کے آئینی و سیاسی حقوق سلب کیے بلکہ ان کی شناخت اور مستقبل پر بھی حملہ کیا۔ یہ دن کشمیریوں کے لیے یومِ سیاہ تھا، اور دنیا کے لیے ایک آزمایش—جسے وہ آج تک نہیں نبھا سکی۔

کشمیر کی وادی، جو کبھی "جنتِ نظیر” کہلاتی تھی، آج فوجی محاصرے، لاک ڈاؤن، اور گولیوں کی آوازوں میں گھری ہوئی ہے۔ 5 اگست کے بعد وہاں جو کچھ ہوا وہ کسی فلمی منظرنامے سے کم نہ تھا—موبائل نیٹ ورک بند، انٹرنیٹ سروس معطل، اخبارات خاموش، ٹی وی اسکرینیں سیاہ، اور لاکھوں لوگ خوف کے سائے میں مقید۔ یہ سب کچھ ایک ایسی جمہوریت کے ہاتھوں ہو رہا تھا جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا اقدام نہ صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے منافی تھا بلکہ اس کے اپنے آئین اور وفاقی ڈھانچے کے بھی خلاف تھا۔ جموں و کشمیر، جو اقوامِ متحدہ کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے، اس کی حیثیت کو یک طرفہ طور پر تبدیل کرنا بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ عالمی برادری اس سب پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ انسانیت، حقوق، آزادی—سب صرف الفاظ بن کر رہ گئے ہیں، جب مظلوم مسلمان ہو۔

یومِ استحصال ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ کشمیر صرف جغرافیہ کا مسئلہ نہیں، یہ ایک قوم کی شناخت، وقار اور خودارادیت کی لڑائی ہے۔ آج بھارت آبادیاتی تبدیلیوں کے ذریعے وہاں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ غیر ریاستی باشندوں کو زمینیں دی جا رہی ہیں، ڈومیسائل جاری کیے جا رہے ہیں، اور کشمیریوں کی زمینیں چھینی جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت کیا جا رہا ہے تاکہ کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کو مٹا کر اسے ایک ہندو اکثریتی خطہ بنا دیا جائے۔

اس سارے منظرنامے میں پاکستان نے ہمیشہ کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے، لیکن اب صرف بیانات، تقاریر یا قراردادیں کافی نہیں۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر مزید جارحانہ اور نتیجہ خیز اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ کشمیر کو عالمی ضمیر پر دستک دینے کے لیے ایک منظم، مسلسل اور بلند سطح کی سفارتی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے سامنے یہ واضح کرنا ہو گا کہ کشمیر محض دو ممالک کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے۔

داخلی طور پر بھی پاکستان کو سمجھنا ہو گا کہ ایک مستحکم، خوشحال اور متحد پاکستان ہی کشمیریوں کے لیے اصل امید ہو سکتا ہے۔ جب ہم خود آپس میں تقسیم ہوں گے، معیشت کمزور ہو گی، ادارے بکھرے ہوں گے، تو ہماری آواز عالمی سطح پر سنجیدگی سے نہیں سنی جائے گی۔

کشمیر کی جدوجہد آج بھی جاری ہے۔ گولیاں ان کے حوصلے کو نہیں مار سکتیں، قید ان کی سوچ کو قید نہیں کر سکتی، اور لاک ڈاؤن ان کے جذبے کو کمزور نہیں کر سکتا۔ ہر شہید نوجوان، ہر آنسو بہاتی ماں، ہر زخمی بچہ اس جدوجہد کا زندہ استعارہ ہے۔

5 اگست کو یومِ استحصال کے طور پر منانا صرف رسمِ احتجاج نہیں، بلکہ یہ ہمیں یہ یاد دلانے کا دن ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا فرض ہے، کہ خاموشی جرم ہے، اور کہ کشمیریوں کا خون ہم پر قرض ہے۔جب تک کشمیر آزاد نہیں ہوتا، یہ زخم رستا رہے گا—خاموش، لیکن گواہ؛ اور جدوجہد جاری رہے گی—زخمی، لیکن زندہ۔

Shares: