خاموشی محض الفاظ کے نہ ہونے کا نام نہیں، یہ روح کی وہ کیفیت ہے جس میں انسان اپنے اندر کے مکالمے سنتا ہے۔ بعض اوقات ایک لمحۂ سکوت ہزاروں لفظوں پر بھاری ہوتا ہے۔ دل کی گہرائیوں میں چھپی وہ صدائیں جو زبان ادا نہیں کر پاتی، خاموشی ہی کے پردے میں زیادہ واضح ہو جاتی ہیں۔
ہمارا موجودہ معاشرہ شور و ہنگامے میں ڈوبا ہوا ہے۔ سیاست کا شور، میڈیا کا شور، بازاروں کا شور—لیکن ان سب آوازوں کے بیچ وہ سکوت کھو گیا ہے جو انسان کو اپنی حقیقت سے روشناس کراتا ہے۔ ہر شخص بول رہا ہے مگر سننے والا کوئی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلقات کمزور اور دلوں کے فاصلے طویل ہو گئے ہیں۔خاموشی کی اپنی زبان ہے۔ یہ کبھی محبت کی گہری علامت بن جاتی ہے اور کبھی احتجاج کا سب سے مضبوط اظہار۔ کبھی یہ زخموں کو ڈھانپ لیتی ہے اور کبھی دعا کی صورت آسمان تک پہنچتی ہے۔ اہلِ دانش کا کہنا ہے کہ کچھ سچائیاں صرف سکوت میں سمجھی جا سکتی ہیں، کیونکہ شور میں حقیقت کی آواز دب جاتی ہے۔
لیکن افسوس کہ آج ہم نے یہ دولت کھو دی ہے۔ ہماری زندگیاں مصنوعی مصروفیات میں الجھ گئی ہیں۔ لمحہ بھر کے سکوت کو ہم اجنبیت سمجھنے لگے ہیں، حالانکہ یہی لمحے ہماری روح کے لیے شفا ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم شور سے نکل کر اپنے اندر جھانکیں، اپنے دل کی خاموشی کو سنیں۔ کیونکہ جو شخص اپنی خاموشی کو سمجھ لیتا ہے، وہی اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے۔ اور جب انسان خود کو پہچان لے تو دنیا کے ہنگامے بھی اس پر اثر انداز نہیں ہو پاتے۔