ماما پھلا دھوپ میں بیٹھا مالٹوں پر حملہ کرنے میں مصروف تھا کہ آواز آئی۔ "کوٹ لے لو، بنیان لے لو، جرابیں لو”۔ پنچابی زبان والا”ماما”، ضروری نہیں کہ آپ کی اماں کا بھائی ہو۔ گاؤں میں ہر وہ شخص آپکا ماما ہے کہ جس کے ساتھ آپ گھنٹوں گپیں ہانک سکیں۔
دروازے سے ہی ماما جی نے پھیری والے خان کو رکنے کا کہا۔ "یہ کوٹ کتنے کا ہے خان صاب”، مامے پھلے نے کوٹ پہنتے ہوئے خان سے پوچھا۔ "ساڑھے تین ہزار کا صرف تمہاری خاطر”۔
خان نے کلائی میں بڑی عمدہ گھڑی پہن رکھی تھی۔ جسکا سنہری رنگ اسے بار بار دیکھنے پر مجبور کر رہا تھا۔مامے پھلے نے خان کی کلائی کی طرف اشارہ کر کے پوچھا، ” خان فار سیل ہے”۔
قہقہ لگاتے ہوئے خان بولا۔
"ہم قادر خان ہے، عمران خان نہیں”۔ خیر پندرہ سو میں کوٹ لے کر میں اور ماما پھلا گھر کی طرف چل پڑے۔ماما جی کیا خان نے واقعی گھڑی بیچی ہوگئی؟ ماما پھلا بولا "پتہ نہیں۔۔۔۔۔(چند منٹ کی گہری خاموشی کے بعد قدرے غصے میں)مان لیا بیچی بھی ہے تو کیا باقی صادق و امین ہیں سارے؟۔۔۔۔۔۔۔ خیر مامے پھلے نے اور کیا کہا اسے چھوڑیے "خان فار سیل ہے” سے منصور آفاق صاحب کے کچھ اشعار یاد آرہے ہیں۔ وہ دیکھیے
گرہ میں مال ہے جس کے، خرید سکتا ہے
کہیں عمامہ کہیں ہے ردا برائے فروحت
وفا کی، ان سے توقع کریں تو کیسے کریں
جنہوں نے اپنی جبیں پر لکھا برائے فروخت
یہ لوگ کیا ہیں ؟حمیت کامول مانگتے ہیں
یہ ننگ ِ ملک، یہ اہل ِ قبا برائے فروخت
دعائیں دے ہمیں ، تجھ کوخرید لائے تھے
کسی زمانے میں تُو بھی تو تھا برائے فروخت
یہ خوش خطوں کا ہنر ہے یہ دلبروں کا طریق
جفا برائے محبت، وفا برائے فروخت
رُکے تھے کنج گلستاں میں ہم بھی کل منصورؔ
کہیں تھے گل کہیں بادصبا برائے فروخت
چند دن پہلے خان کی گھڑی سے متعلق ایک آڈیو لیک سامنے آئی۔ جس میں زلفی بخاری کو بشریٰ بی بی سے سلام کرنے کے بعد ان کی خیریت دریافت کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔اس کے بعد بشریٰ بی بی زلفی بخاری سے یہ کہتی ہیں کہ "خان صاحب کی کچھ گھڑیاں ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ آپ کو بھیج دوں”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زلفی بخاری نے بشریٰ بی بی کی یہ بات سننے کے بعد جواب میں کہا کہ”ضرور مرشد میں کردوں گا، میں کر دوں گا جی”۔
اس آڈیو لیک بعد یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ قصور مرشد کا ہے، مرید کو ہم ویسے ہی قصوروار ٹھہرا رہے تھے۔