طالبان کا خواتین کے پردے کو یقینی بنانے کے لیے کھڑکیوں پر پابندی، نئے حکم نامے کا اجرا

افغان طالبان حکومت نے خواتین کے پردے کے تحفظ کے لیے ایک نیا حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں رہائشی عمارتوں میں کھڑکیوں کی تعمیر پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ نئے حکم نامے کے مطابق، طالبان حکومت نے نہ صرف نئے گھروں میں کھڑکیاں بنانے سے منع کیا ہے بلکہ موجودہ عمارتوں میں بنائی گئی کھڑکیوں کو بھی بلاک کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ پڑوسیوں کے گھروں میں خواتین کی سرگرمیوں کو دیکھنا ممکن نہ ہو۔

حکم نامے میں میونسپل حکام اور متعلقہ محکموں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ تمام تعمیراتی مقامات کی سخت نگرانی کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی بھی نیا گھر یا عمارت ایسی کھڑکیاں نہ بنائے جو کسی پڑوسی کے گھر یا عوامی مقامات کی طرف کھلیں۔ اس حکم نامے کا مقصد خواتین کو غیر ضروری نظراندازی سے بچانا اور ان کے پردے کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس بارے میں ایک پوسٹ بھی جاری کی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ "نئے گھروں میں ایسی کھڑکیاں نہیں ہونی چاہیے جن سے صحن، کچن، پڑوسی کے کنویں یا خواتین کے زیر استعمال کسی بھی جگہ کی جھلک دکھائی دے۔” ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو کچن میں کام کرتے ہوئے، برآمدے میں آتے جاتے یا کنویں سے پانی لیتے ہوئے دیکھنا فحاشی کی علامات ہو سکتا ہے، جو طالبان حکومت کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے۔اس حکم نامے کے تحت، جو گھروں میں پہلے سے ایسی کھڑکیاں موجود ہیں جو پڑوسیوں کے گھروں کی طرف کھلتی ہیں، ان کے مالکان کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ان کھڑکیوں کو بلاک کریں یا دیوار بنا کر چھپائیں تاکہ باہر سے کسی کو گھر کے اندر جھانکنے کا موقع نہ ملے۔ طالبان نے کہا ہے کہ گھر کے مالکان کو اس بات کی ترغیب دی جائے گی کہ وہ ایسی کھڑکیاں یا کھلی جگہیں مکمل طور پر ختم کردیں تاکہ پڑوسیوں یا دوسرے افراد کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔

یہ حکم طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کے پردے کے اصولوں کو مزید سخت بنانے کی ایک اور کوشش ہے۔ طالبان کے مطابق خواتین کا تحفظ اور پردہ برقرار رکھنا ان کے معاشرتی و ثقافتی اصولوں کا حصہ ہے، اور اس سلسلے میں حکومت نے کئی اقدامات اٹھائے ہیں جن میں خواتین کو گھروں سے باہر کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے سے بھی محدود کیا گیا ہے۔افغان طالبان کے اس اقدام پر عالمی سطح پر مختلف ردعمل سامنے آ رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے ادارے اور خواتین کے حقوق کے کارکنان ان اقدامات کو خواتین کے حقوق کے خلاف سمجھتے ہیں اور ان کی آزادیوں پر مزید پابندی کی مذمت کر رہے ہیں۔ دوسری طرف، طالبان حکومت اپنے اقدامات کو اسلامی معاشرتی اقدار کے تحفظ کی ضرورت قرار دیتی ہے۔طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ ان کے اس نئے حکم سے افغان معاشرے میں خواتین کی عزت اور وقار کو بڑھایا جائے گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ خواتین کا پردہ برقرار رہے۔

دوسری جانب عبوری افغان حکومت کی وزارت اقتصادیات نے ایک بار پھر غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی کے حکم نامے کو دوبارہ نافذ کر دیا ہے۔ افغان طالبان کے سپریم لیڈر کے سابقہ حکم نامہ میں توسیع کرتے ہوئے اعلان کیا گیا ہےکہ ایسے دفاتر میں خواتین کو نظر نہیں آناچاہیے۔وزارت نے خبردار کیا کہ اگر کوئی این جی او اس کی تعمیل نہیں کرتی ہے تو ان کی افغانستان میں کام کرنے کی حیثیت منسوخ کر دی جائے گی۔واضح رہے کہ خواتین پر گزشتہ دو سالوں سے بین الاقوامی این جی اوز میں کام کرنے پر پابندی عائد ہے۔

لنڈی کوتل میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ، عوام سراپا احتجاج

لنڈی کوتل: کھیل امن کے لیے۔ تاتارا کرکٹ ٹورنامنٹ 2025 کی ٹرافی کی تقریب رونمائی

Shares: