خیالات پرانے یا نئے نہیں ہوتے، درست یا غلط ہوتے ہیں۔ ہر نئی چیز اچھی نہیں اور ہر پرانی چیز بری نہیں ہوتی۔ سخاوت ایک پرانا خیال سہی، مگر کردار کی عظمت کا نشان آج بھی بنتی ہے۔ بہادری کا لفظ پرانا ضرور، مگر دنیا آج بھی بہادروں کی عزت کرتی ہے۔
چالاکی ہوشیاری مکاری جھوٹ فریب دغا، گو جدید دور میں نئے ناموں کے ساتھ لانچ کر دئیے گئے مگر آج بھی برے کے برے ہیں، دنیا نئے سیاروں پر چلی جائے، چاند پہ بسیرے کر لے، سورج پہ چھاوں تلاش کر لے، انہیں جھوٹ سے نفرت کرنا ہی پڑے گی۔ فریب پوری تاریخ بدل جانے کے باوجود فریب ہی رہے گا، گھٹیا اور بودا ہی رہے گا۔ قابل احترام لفظ نہیں بن سکتا۔ قتل نفس مظلوم جرم تھا جرم رہے گا۔
گویا کچھ تعلق نہیں نئے پرانے کی بحث کا اچھائی برائی کے ساتھ۔
مسئلہ توحید ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک تروتازہ ہے، اہل توحید آج بھی اجنبی اور دشمنان توحید آج بھی خود کی عقل پہ نازاں۔ قوم نوح نے پانچ بت بنائے، کئی اقوام نے معبد خانے بھر دئیے، کئی شاہوں نے اپنی خدائی کا اعلان کیا اور مشرکین مکہ کے بت ہزاروں تک پہنچ گئے، کئی تہذیبوں نے ہر جاندار چیز کو خدا مانا اور کئیوں نے خود طاقت ور ہر مخلوق کے سامنے سر جھکایا، انکار خدا پر ان کے دلائل یہی ہوا کرتے کہ وہ سامنے کیوں نہیں آتا، غریبوں کو نبی بنا کر بھیج دیا، اس کے ساتھی غریب ہی کیوں ہیں،۔ہمارے اسٹیٹس کو پرابلم ہوجاتی ہے وغیرہ !
دور جدید میں اسی توحید کے دشمنوں نے خدا کی وحدانیت کا عقیدہ چھوڑ کر انسان کو ہی خدا باور کرویا، گویا خدا کو سمجھانا پڑا کہ قبلہ آپ خدا ہیں۔ہے نا عجیب !
پھر ایک خدا کو چھوڑ کر لاکھوں غیر مرئی طاقتوں پر ایمان لے آئے۔ پہلے مشرکین سے کہا جاتا کہ تمہارے بت کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں تو وہ جواب دیتے، تمہارا خدا بھی تو نظر نہیں آتا۔ آج کا جدید مشرک جب جواب دیتا تو بعینہ یہی سوال اٹھاتا ہے کہ خدا نظر کیوں نہیں آتا، بلیک ہول کے بعد تو دنیا ختم، وہاں تو خدا نہیں ہے۔ ان سے پوچھیں قوانین قدرت بھی تو نظر نہیں اتے، تس پہ جواب دیتا ہے کہ ان کے آثار تو بکھرے پڑے ہیں، جواب ہمارا بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ خود تمہارے جسم کے اندر کے نظام سے سمجھ آتا ہے، اگر تم سمجھنے کی کوشش کرو، اگر کوشش ہی نا کرو تو بے شک پہاڑ الٹا دئیے جائیں، ہدائت تب ہی ملنی جب حکم خداوند قدوس کا آجانا ہے۔