Email; jabbaraqsa2@gmail.com
قوموں کی زندگی میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں جب صرف منزل کا کھو جانا المیہ نہیں ہوتا، بلکہ راستے کا بھٹک جانا اور خود کو پہچاننے سے انکار کرنا اصل تباہی بن جاتا ہے۔ پاکستان آج ایک ایسے ہی نازک مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف معاشی بحرانوں کا لامتناہی سلسلہ، دوسری طرف سماجی بگاڑ کی انتہا، اور ان سب کے درمیان بطور امت مسلمہ ہماری بےحسی اور لاتعلقی، گویا خود کشی کی مکمل تصویر ہے۔
یہ سچ ہے کہ مہنگائی، بیروزگاری، بدعنوانی اور عدالتی نظام کی کمزوریاں ہمیں اندر سے کھوکھلا کر رہی ہیں، مگر اصل زہر ہماری اجتماعی بےحسی میں ہے۔ آج کا پاکستانی فرد صرف اپنی ذات تک محدود ہو چکا ہے۔ اسے ہمسائے کی بھوک نظر نہیں آتی، اسے مزدور کی محنت کی قدر نہیں، اسے استاد کی توقیر کا شعور نہیں۔ معاشرتی اقدار صرف تقریروں تک محدود ہو چکی ہیں اور کردار سازی کا عمل تعلیمی نصاب میں دفن ہو چکا ہے۔
ہم نے دین کو صرف عبادات تک محدود کر دیا، حالانکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ قرآن صرف رواجی تلاوت کے لیے رکھا گیا، اور سنت صرف تقریر کا موضوع بنی رہی۔ ہم نے دین کو دل سے نہیں، رسم سے اپنایا۔ یہی وجہ ہے کہ نمازیں بڑھتی گئیں اور معاملات بگڑتے گئے، داڑھیاں لمبی ہوئیں مگر دل تنگ، مساجد آباد ہوئیں مگر بازار بےایمان۔
پاکستان کے بازاروں میں جھوٹ عام ہے، دفاتر میں رشوت معمول، سڑکوں پر بدتمیزی عام، اور تعلیمی اداروں میں اخلاقیات ناپید۔ ہم نے ترقی کو صرف عمارتوں سے جوڑا، انسانوں کے معیارِ فکر اور احساس کو نظر انداز کر دیا۔ اسی لیے آج ہمارے ہاں شرحِ خواندگی تو بڑھ رہی ہے، مگر شعور گھٹ رہا ہے۔
امتِ مسلمہ کی حالت بھی مختلف نہیں۔ ہم جو کبھی ایک صف میں کھڑے ہونے کا فخر رکھتے تھے، آج قومیت، مسلک، اور مفادات میں بٹ چکے ہیں۔ فلسطین، کشمیر، روہنگیا اور غزہ کی چیخیں صرف سوشل میڈیا پر دکھ بھری پوسٹوں تک محدود ہیں۔ عملی اقدامات کا جذبہ ناپید ہو چکا ہے۔ او آئی سی جیسے ادارے صرف اجلاس منعقد کرنے کے لیے رہ گئے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ مسلمان امت کا مفہوم قیادت، علم، اخلاق اور عدل سے جڑا تھا، اور آج ہم صرف ردعمل سے کام چلا رہے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم خود احتسابی کریں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے زوال کا سبب باہر نہیں، ہمارے اندر ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اپنے رویوں، سوچ اور ترجیحات کو بدلنا ہوگا۔ عبادات کے ساتھ معاملات کو بہتر بنانا ہوگا۔ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے، سچ بولنے، حق کا ساتھ دینے، اور علم کو بنیاد بنانے کا عہد کرنا ہوگا۔
کیونکہ اگر ہم نے اب بھی آنکھ نہ کھولی، تو تاریخ صرف ہمارا نوحہ لکھے گی، فخر نہیں۔