یہ میرے الفاظ نہیں ہیں بلکہ ایک کمشنر اور درجن بھر ڈپٹی کمشنرز کے ہیں۔ مذکورہ ڈپٹی کمشنرز کا کہنا تھا کہ چند کالی بھیڑوں نے سارے ڈپٹی کمشنرز کو گالی بنادیا ہے۔ ایک اور ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایکٹنگ کرنے والے گندے انڈوں نے انتہائی عزت اور فخر کی علامت "ڈپٹی کمشنر” کی سیٹ کو داغدار کردیا ہے۔ ایک اور ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ دو تین ڈپٹی کمشنر جس طرح عوامی تذلیل کرکے نمبر گیم بنانا چاہتے ہیں ایسی "بے غیرتی” انہی کو مبارک۔
سنئیر بیوروکریسی کا کہنا تھا کہ سول سروس کو جتنا گندہ اس دور کے افسران نے کیا ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، انہوں نے کچھ سنئیر افسران کے حوالے سے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلاں اچھا خاصا سمجھدار افسر ہوتا تھا پتا نہیں یہ ”ک ن ج ر وں“والے شوق میں کیسے پڑ گیا۔
ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس افسران کی اکثریت کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی سوشل میڈیا سیلف پروجیکشن کو لعنتی کام سمجھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کے ساتھی افسران اس قدر "بے غیرت اور واحیات” ہوچکے ہیں کہ انکا بس نہیں چلتا کہ واش روم میں بھی کیمرہ لگوا لیں۔
خوش آئند بات ہے کہ بیوروکریسی کی اکثریت سیلف پروجیکشن کے اس غیر قانون دھندے کو ناصرف لعین سمجھتے ہیں بلکہ اس کے خاتمے کے خواہشمند ہیں۔ کمشنرز اور سیکرٹریز کا کہنا تھا کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی کو چاہئے کہ سیلف پروجیکشن کے غیر قانون دھندھے پر مجرمانہ خاموشی توڑ دیں، سول سروس کو گالی بننے سے بچانے کیلئے ٹک ٹاکر افسران کو فی الفور عہدوں سے ہٹایا جائے ورنہ تاریخ میں لکھا جائے کہ ان صوبائی سربراہان کے دور میں "صوبہ بنانا ریپبلک” بنا ہوا تھا اور یہ صاحبان عوام بھاڑ میں جائے والی پالیسی اپنائے صرف”باس“ کی جی حضوری کرکے اپنی مدت بڑھاتے رہے۔
خواتین ٹک ٹاکر افسران خاص طور پر پولیس افسران کے بارے ساتھی افسران جس طرح کے تبصرے کرتے ہیں وہ اس قدر "ذومعنی” ہیں کہ تحریر نہیں کیے جاسکتے صرف اتنی گزارش ہے کہ ”بی بی خدا دا واسطہ جے“ اپنی نہیں تو خاتون ہونے کی ہی عزت کا خیال کرلیں۔
سوشل میڈیا پروجیکشن کی لعنت کا شکار ہونے والوں میں پولیس والے سر فہرست ہیں جبکہ اسسٹنٹ کمشنرز کی اکثریت اور نو مولود PERA والے بچے اس غلاظت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جبکہ باقی سروسزز کے افسران بھی پیچھے نہیں رہے۔ پولیس والوں نے جتنی نفرت سوشل میڈیا سے سمیٹی ہے اتنے تو یہ ڈالر بھی نہیں کما سکے ہونگے اگر گالیوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ایک ڈالر کیلئے ایوریج کم از کم پانچ ہزار بندے کی غائبانہ گالیاں سنتے ہوں گے۔ لوگ سرکاری دفاتر اور کھلی کچہریوں میں اپنے مسائل کی درخواست دینے سے اس لیے ڈرتے ہیں کہ ان کم ظرف سرکاریوں نے اپنی بے نسلی کا ثبوت دیتے ہوئے ہمارے ذاتی مسائل کی ویڈیو بنا کر پوری دنیا کو دکھا دینی ہے۔
ٹک ٹاکر افسران کیلئے میرے سخت الفاظ کا چناؤ انہی ٹاک ٹاکرز کے ساتھی افسران کی طرف سے ان کیلئے ادا ہونے والے الفاظ اور القابات کا ہاف ہوتا ہے جبکہ عوام میں پائی جانی والی نفرت کا بامشکل 20فیصد تحریری شکل میں لاتا ہوں۔
سیاستدانوں اور سرکاری افسران سے مایوس عوام کی آخری امید چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف سے گزارش ہے کہ خدارا عوام کو سرکاری افسران کی شہرت کی خاطر تماشا بنانا بند کروایا جائے۔
خوددار میرے شہر کا فاقوں سے مر گیا
راشن تو بٹ رہا تھا مگر فوٹو سے ڈر گیا
غیرت سے عاری بے مروت سرکاری کارندوں کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ سیلاب متاثرین بھکاری نہیں ہیں جن کے ساتھ تم فوٹو سیشن کرتے پھر رہے ہو۔سرکاری افسران کو اس وقت سے ڈرنا چاہئے جب اللہ کی پکڑ آئے اور ان پر خدائی آفت ٹوٹے اور اس وقت کوئی ان جیسا بے شرم موقعے کا افسر ہو۔








