ساڈا کتا،کتا ۔۔۔تے،تواڈا کتا ٹومی ،خدارا لوگوں کو جینے دو،
ادھر دیکھو، باہر دے ملکاں والیاں نے ویکھنی اے، کی کہن گے سانو، اسکو پکڑو سیدھا کرو
یہ الفاظ قانون کے محافظوں کے قوم کی عزتوں کے بارے ہیں۔ پولیس تو عزتوں کی محافظ ہوتی ہے تم کیونکر عزتوں کو پامال کرنے والے اور لٹیرے بن گئے۔ خواتین کے چہروں پر تیز ٹارچ کی روشنی کرتے ہوئے ویڈیو بنانا اور یہ کہنا کہ یہ ویڈیو وائرل ہوگی ناصرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی۔ اسی طرح لڑکوں کو بھی ویڈیو بناتے وقت پولیس کی طرف سے اس بات کا اعلان کیا گیا کہ ”تواڈی ویڈیو ٹک ٹاک تے آوے گی“
جس نے جو جرم کیا اس کیلئے اسے عدالت میں پیش کرنا چاہئے تھا ناکہ ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرنا۔ یہ اختیارات سے تجاوز اور لاقانونیت کی انتہا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ میڈم عالیہ نیلم اور چیف منسٹر پنجاب مریم نواز شریف سے گزارش ہے کہ انصاف کا ترازو اس بات کا متقاضی ہے کہ ویڈیو بنانے اور وائرل کرنے والے تمام پولیس افسران و اہلکاروں کو اس مجرمانہ غفلت پر ناصرف نوکریوں سے فارغ کیا جائے بلکہ پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے پیڈا ایکٹ کی کاروائی کی جائے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، قانون نافظ کرنے والے اداروں اور وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے یہ ٹیسٹ کیس ہے کہ پنجاب میں پولیس گردی چلنی ہے یہ انصاف اور انسانیت۔ یہ پہلا واقع نہیں ہے آئے دن پولیس کی طرف سے ایسی کاروائیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لوگوں میں خوف و ہراس پیدا نا کریں اس طرح تو پولیس شک کی بنیاد پر جس کے گھر مرضی گھس جائے۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال نہ کریں۔ ہاں اگر کوئی سرعام فحاشی کرتا ہے یا غیر قانونی ڈانسنگ کلب بنا رہا ہے تو قانونی کاروائی کریں نہ کہ ویڈیو بنا کر شوشل میڈیا پر وائرل کریں۔
پولیس اہلکاروں کی طرف سے ویڈیو وائرل کرنے کے الفاظ کے عین مطابق بالکل ویسا ہی ہوا 24گھنٹے سے بھی کم وقت میں ایف آئی آر میں نامزد 34مردوں اور 21خواتین کو سوشل میڈیا پر سارے پاکستان اور کئی ممالک نے دیکھا۔ اس بدنامی کی بعد ان میں سے کتنے ہی جوان ہیں جو اس شرمندگی کے باعث پاکستان میں نہیں رہ سکیں گے، کتنے ذہین افراد ذہنی ازیت کا شکار ہو جائیں گے۔ جس کسی کو بھی ان نوجوانوں کے بارے ذہین کہنے پر اعتراض ہے ان کی یاداشت کیلئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بیوروکریسی اور سیاسی افراد کی ذہانت پر تو کوئی شک نہیں۔ پولیس افسران، بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے ڈرگ ٹیسٹ کروا لیں وثوق سے کہتا ہوں کے کم از کم ایک تہائی شراب نوشی اور منشیات کے عادی ملیں گے۔ اسی طرح انہی ذہین افراد کی دو تہائی یعنی ڈبل تعداد شیشہ، سگریٹ نوشی اور مجرہ پارٹیوں کے رسیا ملیں گے۔
2023کی بات ہے لاہور میں ایک اہم سیٹ پر پوسٹڈ آفیسر کے سٹاف کی لیٹ نائٹ کال آئی سر معذرت آپ کو ڈسٹرب کر رہا ہوں۔۔۔۔صاحب نے زیادہ پی لی ہے اور اپنے کپڑے پھاڑ کر عجیب حرکتیں کر رہے ہیں ایسی حالت میں انکو گھر کیسے لیکر جاؤں۔ میں نے اس سے لوکیشن پوچھی اور رات گئے اسے وہاں سے ریسکیو کیا۔ جب اسے ریسکیو کرنے گیا تو اس محفل میں بیوروکریسی کے افسران ہول سیل میں موجود تھے۔ پولیس افسران، بیوروکریسی اور سیاستدان ریگولر بنیادوں پر ایسی پارٹیوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔سرکاری افسران اور سیاستدانوں میں پارٹی گروپ جوائن کرنا کامیابی کی سیڑھی سمجھا جاتا ہے۔ بیوروکریسی میں پارٹی گروپ کی گیم بہت بلند ہے جہاں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس، پولیس سروس آف پاکستان اور پی ایم ایس اور دیگر سروس گروپس کی باہمی عداوت کے برعکس اس بزم (پارٹی گروپ) میں برابری اور بھائی چارے کا عظیم مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان سارے سخت گیر اور معزز افسران کی کہانی لاہور کی پچیس، کراچی کی چھتیس اور اسلام آباد کی بیالیس رقاصاؤں کی گرد گھومتی ہے۔ حسین زلفوں کے اسیر ہونے والے بڑے بڑے ناموں کے چھوٹے کرتوت سن کر یہ چکڑ چوہدری نما مخلوق انتہائی حقیر لگنے لگتے ہیں۔ لاہور کے چند افسران نے گینگ بنا رکھا ہے جو اپنے سنئیر افسران کی مخصوص لڑکیوں سے دوستیاں کرواتے ہیں اور بعد میں انکے زیعے اہم پوسٹنگ لیتے اور اپنے کام نکلواتے ہیں۔ اگر پکڑنا ہے تو ان بلیک میلرز کو پکڑیں۔ شوگر ڈیڈی یا جیسا بھی کلچر ہے اگر دونوں فریق طے شدہ مفادات کے تحت تعلق رکھتے ہیں تو کسی بھی فریق کو بلیک میلنگ نہیں کرنی چاہئے۔
جہاں تک شیشہ کیفے پر پابندی کی بات ہے لاہور، اسلام آباد کراچی سمیت تمام بڑے شہروں میں سینکڑوں کے حساب سے شیشہ کیفے موجود ہیں۔ شیشہ کیفے والے لوکیشن کے حساب سے ایک لاکھ سے تیس لاکھ ماہانہ تک پولیس اور انتظامی افسران کو بھتہ دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت شیشہ کیفے کی حد تک لیگل ٹیکس کیوں نہیں اکٹھا کرتی بجائے اس کے کہ کروڑوں اور اربوں روپیہ افسران کی جیبوں میں جاتا ہے۔پبلک مقامات، سرکاری و پرائیویٹ دفاتر میں سگریٹ نوشی کرنا جرم ہے جس کی سزا قید اور جرمانہ ہے لیکن یہ سیگریت نوشی کرنے والے افسران و افراد پبلک مقامات اور سرکاری دفاتر میں سرعام سگریٹ نوشی کرکے دوسروں کو اذیت دیتے ہیں۔
جو کوئی جیسی بھی تفریح کرتا ہے اگر وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں کرتا ہے تو اسے جینے دیں۔ پہلے ہی بہت سٹریس ہے لوگوں کی زندگیوں کو عذاب نہ بنائیں۔