تمباکو نوشی،کھلے عام دستیاب سستی موت، نوجوان نسل کو بچانے کے لئے اقدامات ناگزیر ورنہ نتائج بھیانک تحریر: محمد مستنصر
صحت کے شعبے میں ہونے والی جدید سائنسی تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ تمباکو نوشی، پان، گٹکا، نسوار اور اس طرح کی دیگر نشہ آور اشیا کینسر، دمہ اور ٹی بی جیسی کئی جان لیوا بیماریوں کا سبب بنتی ہیں یہی وجہ ہے کہ مضر صحت ہونے کی بنا پر ان کا استعمال شرعی طور پر بھی ممنوع ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالی کا واضح حکم ہے۔ "اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بے شک اللہ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔”(البقر، 2: 195)
وہ زہر جو فوری اثر کرے اور انسان کی جان لے اور وہ زہر جو رفتہ رفتہ اور بتدریج انسان کی جان لے جسے (Slow Poision) کہا جاتا ہے، دونوں کے بارے میں ایک ہی حکم ہے اور شرعی اعتبار سے دونوں حرام ہیں۔ بلاشبہ تمباکو نوشی کا شمار (Slow Poision) کے زمرے میں کیا جاسکتا ہے جو بتدریج انسان کی جان لیتا ہے۔ تمباکو نوشی کی ہلاکت خیزی سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالی نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص جان بوجھ کر خود کو ہلاک کرے۔ ارشاد باری تعالی ہے، "اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔” (النسا، 4: 29)
اللہ تعالی کے احکامات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں انسانی صحت کے لئے کسی بھی نقصان دہ چیز کا استعمال حرام ہے جبکہ تمباکو نوشی میں جسمانی، مالی اور نفسیاتی نقصان بھی ہے۔ماہرین کے مطابق تمباکو کے استعمال سے نکلنے والے دھوئیں میں تقریباسات ہزار کیمیکلز موجود ہوتے ہیں جن میں سے ڈھائی سو کے قریب انسانی صحت کیلئے انتہائی نقصان دہ پائے گئے ہیں اور پچاس سے زائد ایسے کیمیکلز موجود ہوتے ہیں جوسرطان کا باعث بن سکتے ہیں۔ تمباکو کے دھوئیں سے خون کی نالیاں سخت ہوجاتی ہیں جس سے دل کادورہ اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس دھوئیں میں کاربن مونو آکسائیڈ گیس ہوتی ہے جو خون میں آکسیجن کی کمی کا باعث بنتی ہے۔ تمباکو نوشی سے پندرہ مختلف اقسام کی بیماریاں پھیلتی ہیں جس میں پھیپھڑوں کا سرطان سرِ فہرست ہے۔ پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا تقریبا نوے فی صد افراد تمباکو نوشی کرنے کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں نوش ہوتے ہیں۔ ملک بھر کے اسپتالوں میں آنے والے چالیس فی صد مرد مریض تمباکو نوشی سے ہونے والے کیمسر کی مختلف اقسام کا شکار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں دوسرا سب سے زیاد ہ پایا جانے والا کینسر منہ کا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تمباکو نوشی ہے۔اسی طرح تمباکو نوشی منہ، گلے، خوراک کی نالی، معدے، جگر، مثانے، لبلبے اور گردے کے کینسر کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ تمباکو نوشی کی تمام اقسام،بشمول سگریٹ، سگار، حقہ، شیشہ اور تمباکو کھانا مثلا پان، چھالیہ، گٹکا وغیرہ اور تمباکو سونگھنا سب کچھ ہی انسانی صحت کے لئے خطرناک ہے۔ ہمارے معاشرے میں تمباکو نوشی کے نقصانات کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے ضروری ہے کہ انسداد تمباکو نوشی کی مہم جارحانہ طور پر چلائی جائے جس میں حکومت، عوام،ذرائع ابلاغ ،تاجربرادری، اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبا بھرپور حصہ لیں۔ اسکول کے نصاب میں تمباکو نوشی کے نقصانات اور دیگر سماجی برائیوں کے بارے میں مضامین شامل کرنے چاہئیں تاکہ بچے بچپن ہی سے ان اہم معلومات سے آگاہ ہوں اور وہ اپنے والدین، رشتے داروں اور محلے داروں کو مجبور کرسکیں کہ وہ یہ عادات ترک کردیں۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان کی 22 کروڑ کی آبادی میں سے 19 فی صد لوگ ایسے ہیں جو 18سال کی عمر میں ہی تمباکو کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔ مردوں میں سگریٹ نوشی کی شرح 32 فی صد اور خواتین میں تمباکو کے استعمال کی شرح 5.7فی صد بتائی جاتی ہے۔ مگر نوجوانی سے قبل ہی اکثر بچے تمباکو استعمال کرنے لگتے ہیں۔پاکستان میں سگریٹ کا استعمال معیشت اور صحت کے شعبے پر بوجھ بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 4 کروڑ 40 لاکھ ایسے بچے ہیں جو 13 سے 15سال کی عمر میں ہونے کے باوجود تمباکو نوشی کرتے ہیں جبکہ بچوں کی ایک بڑی تعداد الیکٹرک سگریٹ کا استعمال بھی کررہی ہے۔ پاکستان میں تمباکو نوشی کی عادت ہر برس ایک لاکھ تریسٹھ ہزار افراد کی جانیں لے لیتی ہے جبکہ تمباکو نوشی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کے علاج معالجے کی لاگت اور تمباکو نوشی سے ہونے والی اموات سے ہونے والے نقصان کی صورت میں ملک کو کروڑوں روپے کا خسارہ ہر سال برداشت کرنا پرتا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایسے عام افراد جو تمباکو نوشی نہیں کرتے ان کے لئے سگریٹ کے دھوئیں سے بچنے کی کوئی محفوظ جگہ نہیں کیونکہ ملک کی کل آبادی کا 72.5فی صد حصہ یعنی 16.8ملین افراد جو بند عمارتوں اور کمروں میں کام کرتے ہیں، انہیں سگریٹ نوشی کے دھوئیں سے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ کل آبادی کا 86فی صدحصہ یعنی 49.2ملین افراد ریسٹورنٹس اور ہوٹلوں میں سگریٹ کے دھوئیں کا سامنا کرتے ہیں جبکہ 76.2فی صد افراد کو عوامی ٹرانسپورٹ میں سگریٹ کے دھوئیں سے خطرات لاحق ہیں۔37.8 فی صدنوجوان(عمر 13تا15 برس)کو عوامی مقامات پر سگریٹ کے دھوئیں سے خطرات لاحق ہیں جبکہ 21فی صدنوجوان اپنے گھروں میں غیر فعال سگریٹ نوشی کا سامنا کرتے ہیں۔تمباکو نوشی انسانی صحت کے لئے مہلک ہے اور اس کے عادی افراد میں سے کم از کم نصف موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔پاکستان میں ایک لاکھ تریسٹھ ہزار افراد ہر برس تمباکو سے متعلق امراض کے سبب انتقال کرجاتے ہیں جو کل اموات کا نو فی صد ہے۔ غیر متعدی بیماریاں جن میں کینسر، عملِ تنفس کی شدیدبیماریاں اور دل کی بیماریاں بھی ذیادہ تر تمباکو کے استعمال کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ تمباکو نوشی سے معاشرے پر بہت ذیادہ مالی بوجھ بھی پڑتا ہے ترقی پذیر اور زیادہ گنجان آباد ممالک میں بہت زیادہ معاشی مواقع ضائع ہوجاتے ہیں کیوں کہ تمباکو سے متعلق اموات عمر کے فائدہ مند سالوں یعنی 30 سے 69 برس کے دوران واقع ہوتی ہیں۔پاکستان میں ایک سگریٹ نوش روزانہ اوسط قومی آمدن کا3.7 فی صددس سستے ترین سگریٹ کی خریداری پرصرف کردیتا ہے اور یوں اربوں روپے ہر سال دھوئیں کی نظر ہو جاتے ہیں۔ جبکہ غریب افراد اپنی آمدن کا ایک بڑا حصہ تمباکو نوشی پر ضائع کر دیتے ہیں یعنی وہ بنیادی انسانی ضروریات،مثلا خوراک،رہائش،تعلیم اور صحت کے بجائے یہ رقم تمباکوپر خرچ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ایسے خاندان کی غربت میں مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، ایک جانب قیمتی وسائل تمباکو نوشی کی وجہ سے ضائع ہوتے ہیں تو دوسری جانب تمباکو استعمال کرنے والے بیماریوں کے زیادہ خطرات کی زد میں رہتے ہیں، سرطان، امراض قلب،سانس کے امراض یا تمباکو نوشی سے متعلق دیگر امراض کی وجہ سے وقت سے پہلے ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ مرنے والے تمباکو نوش افراد کے متبادل کے طور پر سگریٹ اور دوسری نشہ آور اشیاء بیچنے والی کمپنیوں اور افراد کا ٹارگٹ نوجوان نسل بنتی ہے تاکہ ذیادہ عرصے تک کے لئے انہیں (گاہک) میسر ہوں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق روزانہ 15 برس سے کم عمرکے 1200بچے سگریٹ نوشی شروع کر دیتے ہیں۔ہمیں یہ یاد رکھناچاہئے کہ انسانوں کے لئے تمباکو کسی بھی وجہ سے کوئی ضروری چیز نہیں ہے۔اس کی کوئی غذائی اہمیت ہے اور نہ ہی یہ اپنے استعمال کرنے والے کو کوئی صحت بخش فوائد فراہم کرتا ہے۔یہ ان کے اضطراب ،دبائو،غربت اور غذائیت کی کمی میں اضافہ کرکے صرف اور صرف ان کے مسائل اور مشکلات بڑھاتا ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ ملک کی معیشت اور ماحول کو تباہ کرتا ہے۔اگرہم واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ نوجوان ہی ہماری ترقی کا سبب بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو حکومت کو ملک میں تمباکو نوشی کا رجحان کم کرنے کیلئے فوری اقدامات اٹھانے چاہئیں۔اس ضمن میں بچوں کو متبادل گاہک بننے سے بچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔اگر یہ کام موثر انداز میں کرلیا جائے تو اگلے دس تاپندرہ برس میں ملک میں کوئی بھی تمباکو کا دھواں اڑانے والا نہیں ہوگا۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمباکو پربھاری ٹیکس لگانا تمباکو نوشی کے رجحان پر قابو پانے میں سب سے زیادہ موثرعمل ثابت ہواہے۔دیگر ترقی پذیر ممالک کے برعکس پاکستان میں اب بھی دنیا بھر کے مقابلے میں تمباکو کی مصنوعات سستی ہیں۔عالمی بینک کی رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ پاکستان میں سگریٹ کا استعمال کم کرنے کے لئے حکومت کو ہرسال اس پرٹیکس میں کم از کم تیس فی صد تک اضافہ کرنا چاہئے۔ایک اور مطالعہ تجویز کرتا ہے کہ سگریٹ کے نرخ میں تیس فی صد کا اضافہ اس کے استعمال میں 33 فی صد تک کمی لاسکتا ہے جس کے نتیجے میں ایک برس میں اڑتالیس ارب روپے کی بچت ہوسکے گی۔یہ ہمارے لئے فیصلے کی گھڑی ہے کہ کیاہم اپنے لوگوں کو اسی طرح مرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں،اپنی معیشت پر ہر برس اربوں روپے کا علاج معالجے کا بوجھ ڈالتے رہنا چاہتے ہیں، اپنے بچوں کو اسی طرح یتیم اور بے آسرا ہوتے اور ان کا مستقبل تاریک ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں اورکیا ملک کی پیداواری صلاحیت اسی طرح تباہ ہونے دیں گے؟آج ہمیں ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔