خوش قسمت لوگ
تحریر:حافظ امیرحمزہ سانگلوی
رمضان المبارک اپنی رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ رواں دواں ہے۔ یہ مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے۔تو ضروری ہے کہ اس ماہ مبارک میں اس اللہ کے کلام کو خصوصی طور پر ترجیح دی جائے۔ویسے تو ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سارا سال ہی اس کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھے، لیکن اس مہینے میں خاص طور پر پڑھنے اور سمجھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔قرآن پاک کو پڑھنا، اسے زبانی یاد کرنا، اس میں جو احکامات الٰہی ہیں انہیں سمجھنا اور اس کی تعلیم دینا، رب العزت کا قرب حاصل کرنے کا سب سے بہترین اور پاکیزہ ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خالق کائنات نے جو ہمیں ہدایت و رہنما کتاب قرآن مجید عطا فرمائی، اس کی تعلیم حاصل کرنے اور دنیا میں بسنے والے لوگوں کو اس کی تعلیم دینے کی ترغیب دیتے ہوئے یہ اعلان فرما دیا کہ”تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن مجید سیکھتا اور دوسروں کو سکھلاتا ہے“۔(بخاری)
سیدنا حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم ”صفہ“میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا:”تم میں سے کون ہے جو یہ پسند کرتا ہو کہ وہ ہر روز صبح سویرے”بطحان“ یا ”عقیق“ میں جائے،پھر وہاں سے دو موٹی تازی اونٹنیاں مفت میں بغیر کسی گناہ اور قطع رحمی کے لے آئے؟ہم نے کہا:اے اللہ کے رسول!ہم سب یہ پسند کرتے ہیں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تو کیا تم میں سے کوئی شخص صبح سویرے مسجد میں نہیں جاتا جہاں وہ کتاب اللہ کی دو آیات کا علم حاصل کرے یا ان کی تلاوت کرے،یہ اِس طرح کرنا اس کے لیے دو اونٹنیوں سے بہتر ہے اور تین آیات کی تلاوت کرنا، تین اونٹنیوں سے اور چار آیات چار اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔پھر اسی طرح ہر آیت ایک ایک اونٹ سے بہتر ہوگی۔“(احمد ومسلم) –
یاد رہے کہ”بطحان“ مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے اور”عقیق“ مدینہ میں ایک وادی کا نام ہے۔اس حدیث مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی مسجد میں نماز پڑھے اور پھر قرآن مجید کی دو آیتیں سیکھے یا ان کی تلاوت کرے تو یہ اس کے لیے دو بڑی، موٹی اور صحت مند اونٹنیوں سے بہتر ہو گا اور تین آیات تین اونٹنیوں سے اور چار آیات چار اونٹنیوں سے اور پچاس آیات پچاس اونٹنیوں سے بہتر ہیں، اگر کوئی اس سے بھی زیادہ آیات پڑھے گا تو اللہ کے ہاں اس سے بھی زیادہ اجر وثواب کا مستحق ٹھہرے گا۔ بڑ اہی خوش قسمت ہے وہ انسان جو ہر روز مسجد میں نماز پڑھنے جاتا ہے اور ساتھ ساتھ قرآن حکیم کی تلاوت کر کے اتنے بڑے اجر و ثواب کو اپنے نامہ اعمال میں درج کروا لیتا ہے۔ بعض لوگ اس اجر و ثواب سے کئی کئی دن اور کئی کئی مہینے محروم رہتے ہیں۔جو کہ سوائے افسوس اور خسارہ کے کچھ بھی نہیں۔
ہمارے معاشرے میں کئی مسلمانوں کو قرآن مجید پڑھنا نہیں آتا اور عمر بھی بڑی ہوتی ہے، تو وہ بڑی عمر ہونے کی وجہ سے اسے سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ حالانکہ اگر احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو ایسے صحابہ کرام ملیں گے جنہوں نے اپنی بڑی عمر کی پرواہ کیے بغیر اسے سیکھنا شروع کیا۔ اسی طرح پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اگر کوئی مہمان مہاجر آتا تو اسے قرآن مجید کی تعلیم دلواتے۔ جیسا کہ“سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مشغول ہوتے تھے۔ آپ کے پاس جب کوئی مہاجر آتا تو آپ اسے ہم میں سے کسی شخص کے حوالے کر دیتے جو اسے قرآن مجید سکھلاتا۔“قرآن مجید کی تلاوت کے حوالے سے اُس بندے کی بھی بڑی فضیلت ہے جو کوشش کر کے اٹک اٹک کے پڑھتا رہتا ہے۔
بخاری و مسلم میں روایت ہے”حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجید کا ماہر معزز و محترم فرشتوں اور معظم و مکرّم انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہوگا اور وہ شخص جو قرآن مجید پڑھتا ہو لیکن اس میں اٹکتا ہو اور پڑھنا اس پر مشکل ہو یعنی کند ذہن یا موٹی زبان ہونے کی وجہ سے تو ایسے شخص کو دوگنا اجر دیا جائے گا۔”ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہے حالانکہ یہ پڑھنا اس کے لیے سخت مشکل کا باعث ہے، اس کو دو اجر ملیں گے۔
امام ابوالفضل الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں صدر اول کے لوگ قرآن مجید کو حفظ کرنے اور کروانے کا خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے۔ بسااوقات بڑی عمر کے لوگ چھوٹی عمر کے لوگوں سے پڑھتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:”قتادہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام دن کو لکڑیاں اکٹھی کرتے اور رات کو قیام کرتے اور ثابت رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے۔ وہ ان لکڑیوں سے اہل صفہ کے لیے کھانا خریدتے تھے اور رات کو قرآن مجید پڑھتے اور اس کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ جس کو قرآن مجید پڑھنا نہیں آتا اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے کام کاج سے جب فارغ ہو جائے قرآن پاک سیکھنے کے لیے کسی اچھا پڑھنے والے سے ضرور سیکھے۔
ابوامامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: قرآن مجید پڑھا کرو،کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے شفاعت کرنے والا بن کر آئے گا۔“(مسلم)”حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ رب العزت فرماتا ہے: جس شخص کو قرآن اور میرا ذکر اتنا مشغول کردے کہ وہ مجھ سے کچھ مانگ بھی نہ سکے تو میں اسے مانگنے والوں سے بھی زیادہ عطا فرما دیتا ہوں اور تمام کلاموں پر اللہ تعالیٰ کے کلام کی فضیلت اسی طرح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پرفضیلت ہے۔