ڈیرہ غازیخان (باغی ٹی وی ،خصوصی رپورٹ) ڈیرہ غازیخان اور گرد و نواح کے باسیوں کے لیے ایک طویل انتظار بالآخر خوشی میں بدل گیا ہے کیونکہ خوشحال خان خٹک ایکسپریس کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم ٹرین چلتن ایکسپریس کی بحالی کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ 2010 سے بند پڑی ہوئی یہ عوام دوست ٹرین تونسہ، شادن لنڈ اور ڈیرہ غازیخان کے عوام کے لیے نہ صرف سفری سہولتوں میں ایک بڑا اضافہ ثابت ہوگی بلکہ خطے کی معاشی و سماجی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔ اس پیش رفت سے پاکستان ریلوے کو بھی ایک منافع بخش ادارہ بنانے کی جانب ایک مضبوط قدم اٹھانے کا موقع ملے گا۔
تاہم اس خوشی کے ماحول میں ایک تشویشناک پہلو بھی سر اٹھا رہا ہے۔ ریلوے اسٹیشن کی بحالی اور تزئین و آرائش کے نام پر ہونے والے مبینہ ناقص کام اور اس کے ساتھ ہی ریلوے کے اندر موجود کرپشن کے ایک وسیع نیٹ ورک کے انکشافات نے اس مثبت خبر کی چمک کو مدھم کر دیا ہے۔ ذرائع کی رپورٹ کے مطابق جہاں ایک طرف ان اہم ٹرینوں کی بحالی سے مسافروں میں جوش و خروش پایا جاتا ہے وہیں دوسری جانب ریلوے کے بدعنوان عناصر کے سائے اس خوشی کو گہنا سکتے ہیں۔
دوسری طرف ماہرین کا کہنا ہے کہ خوشحال خان خٹک ایکسپریس اور چلتن ایکسپریس کی کامیابی کا براہ راست تعلق ریلوے میں موجود کرپشن کے خاتمے سے ہے۔ ماضی میں مبینہ بدعنوانی کے باعث ہی ان جیسی اہم ٹرینوں کو خسارے کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر انہیں بند کرنا پڑا۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ان بحال ہونے والی ٹرینوں میں مسافروں کی ضروریات کے مطابق مناسب تعداد میں بوگیاں شامل کی جائیں۔ اگر ماضی کی طرح صرف چند بوگیوں کے ساتھ ان ٹرینوں کو چلایا گیا تو اخراجات آمدنی سے تجاوز کر سکتے ہیں اور قومی خزانے کو ایک بار پھر نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق ریلوے کے اندر کرپشن کا ایک منظم نظام کام کر رہا ہے، جس میں اسٹیشن عملہ اور ریلوے پولیس کی مبینہ ملی بھگت سے بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے مسافروں سے غیر قانونی وصولیاں کی جاتی ہیں۔ یہ صورتحال ویجیلینس ایجنسی کے کردار پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے کہ ماضی میں اس سنگین بدعنوانی کو کیوں نظر انداز کیا گیا۔
مزید انکشافات کے مطابق ڈیرہ غازیخان سے ملحقہ بند ریلوے اسٹیشنوں پر گزشتہ کئی سالوں سے کرپشن میں ملوث افسران کے خلاف ہیڈ آفس میں انکوائریاں جاری ہیں۔ ان میں سے مبینہ طور پر اہم کردار انسپکٹر آف ورکس (IOW) رانا مبشر کا بتایا جاتا ہے جنہوں نے مبینہ طور پر اپنے معاملات طے کر لیے ہیں اور انہیں جلد ہی کلین چٹ ملنے کی توقع ہے۔
ڈیرہ غازیخان ریلوے جنکشن گزشتہ 6 سال سے اعلیٰ افسران کی عدم موجودگی کے باعث بدعنوانی کا گڑھ بن چکا ہے۔ اسٹیشن پر عملے اور افسران کی کمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کرپٹ عناصر بے خوف و خطر اپنی غیر قانونی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ریلوے کالونی بھی اس مبینہ کرپشن کی لپیٹ میں ہے،IOW،AEN،DEN اور دیگر بااثر ریلوے افسران کی مبینہ سرپرستی میں غیر متعلقہ اور جرائم پیشہ افراد مقامی ملازمین سے ساز باز کرکے ریلوے کی رہائشی کالونیوں پر قابض ہیں اور بیشتر کوارٹر کرائے پر چڑھا دیے گئے ہیں۔ کالونی میں بنیادی سہولیات جیسے صفائی، سیوریج اور پانی کی فراہمی کا نظام بھی تباہ حال ہے۔
حیران کن طور پر ڈیرہ غازیخان ریلوے اسٹیشن پر اہم انتظامی عہدے خالی پڑے ہیں اور گزشتہ 15 سال سے ایک ہی اسٹیشن ماسٹر محمد عابد اور سیکنڈ اسٹیشن ماسٹر محمد اقبال تعینات ہیں جن پر مبینہ طور پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں۔ گزشتہ 6 سال کی ٹرین کی بندش کے دوران مبینہ طور پر IOW رانا مبشر نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی ریلوے اراضی پر قبضے کروائے اور سٹی گارڈن دیوار سکینڈل میں بھی مبینہ طور پر سابق MPA احمد علی دریشک اور ان کے مبینہ فرنٹ مین شہزاد جسکانی کے ساتھ ملی بھگت سامنے آئی ہے جو ریلوے زمین ایک کالونی میں شامل کرلی گئی،جس پر کوئی ایکشن نہیں لیاگیا۔ پرانے لوہے کے سکریپ کی غیر قانونی فروخت کا بھی ایک بڑا سکینڈل سامنے آیا ہے، جس میں IOW رانا مبشر، سابق پرماننٹ وے انسپکٹر (PWI) آفتاب لغاری اور موجودہ PWI اعجاز مبینہ طور پر ملوث ہیں۔
اسٹیشن کے شمالی جانب واقع پرانے سٹور کی قیمتی چھتیں غائب کر دی گئیں اور اس کی کوئی باضابطہ انکوائری نہیں ہوئی۔ پھاٹک کے قریب ریلوے کی سرکاری اراضی پر اسٹیشن ماسٹر محمد اقبال اور ریلوے پولیس چوکی انچارج نے مبینہ طور پر غیر قانونی سرگرمیاں کیں۔ PWI آفتاب لغاری پر بھی ریلوے لائن کے ساتھ ناجائز تجاوزات کروا کر بھتہ وصول کرنے کے سنگین الزامات ہیں۔ موجودہ PWI نے مبینہ طور پر کرپشن کے نرخوں میں اضافہ کر دیا ہے، جس میں گھر بیٹھے تنخواہیں لینے والے ملازمین سے ماہانہ بھاری رشوت وصول کی جاتی ہے۔ ریلوے کالونی میں پانی کی فراہمی کا نظام انتہائی ناقص ہے اور مسافروں کے لیے پینے کے صاف پانی کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ کروڑوں روپے کا ریونیو دینے والا مال گودام اسٹیشن گزشتہ کئی سالوں سے بند پڑا ہے اور مبینہ طور پر اسٹیشن ماسٹر محمد عابد نے اسے انتہائی کم کرائے 4000روپے ماہانہ پر اپنے من وینڈر کو دے رکھا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی اس صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیں گے اور ان سنگین بے ضابطگیوں اور میگا کرپشن میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائیں گے؟ خوشحال خان خٹک ایکسپریس اور چلتن ایکسپریس کی بحالی یقیناً ایک خوش آئند اور بروقت اقدام ہے لیکن اس کی حقیقی کامیابی اور پاکستان ریلوے کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ڈیرہ غازیخان ریلوے سمیت پورے ادارے کو کرپشن کے ناسور سے پاک کیا جائے۔ بصورت دیگر ان ٹرینوں کی بحالی کی خوشی جلد ہی مایوسی میں بدل سکتی ہے۔