پریگنینسی میں خواتین کو متلی اور الٹی کیوں آتی ہے؟تحقیق

مارننگ سکنس کی علامات میں متلی، بھوک میں کمی،قے،نفسیاتی اثرات، جیسے ڈپریشن اور اضطراب شامل ہیں
0
191
hamal

تمام حاملہ خواتین میں سے تقریباً نصف سے دو تہائی کو کسی حد تک خاص طور پر پہلی سہ ماہی میں مارننگ سکنس کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی علامات میں متلی اور الٹی شامل ہیں-

باغی ٹی وی : اس مسئلے کے لیے طبی زبان میں مارننگ سکنس (sickness) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، کیونکہ یہ بیماری دن کے اوائل میں بدترین ہوتی ہے، لیکن یہ دن یا رات کے کسی بھی وقت حملہ کر سکتی ہے مگر اب تک یہ معلوم نہیں تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے،اب پہلی بار اس کی ممکنہ وجہ دریافت کی گئی ہے جس سے اس کے علاج میں مدد مل سکے گی۔

زیادہ تر خواتین کے لیے، مارننگ سکنس حمل کے چوتھے ہفتے کے آس پاس شروع ہوتی ہے اور 12 سے 14 ہفتوں تک ٹھیک ہو جاتی ہے۔ تاہم، 5 میں سے 1 عورت اپنی دوسری سہ ماہی میں اس بیماری کو برداشت کرتی ہے، اور چند خواتین کو اپنی حمل کی پوری مدت تک متلی اور الٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے زیادہ تر معاملات میں، مارننگ سکنس عورت یا پیدا ہونے والے بچے کو نقصان نہیں پہنچاتی ہے۔ تاہم، شدید مارننگ سکنس جس میں وزن میں کمی اور پانی کی کمی شامل ہے، فوری طبی امداد کی ضرورت ہے۔

امریکا کی سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ ایک مخصوص ہارمون حاملہ خواتین میں متلی اور الٹیوں کی شکایت بڑھانے کا باعث بنتا ہے، 80 فیصد حاملہ خواتین کو قے اور متلی جیسے اثرات کا سامنا ہوتا ہے اور کچھ میں اس کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے جس کے باعث اسپتال کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

مارننگ سکنس کی علامات میں متلی، بھوک میں کمی،قے،نفسیاتی اثرات، جیسے ڈپریشن اور اضطراب شامل ہیں،اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ جی ڈی ایف 15 نامی ہارمون کی سطح حمل کی پہلی سہ ماہی کے دوران نمایاں حد تک بڑھ جاتی ہے،تحقیق میں قے اور متلی جیسی علامات کو اس ہارمون کی سطح میں اضافے سے منسلک کیا گیا ہے۔

یہ ہارمون دماغ کے ایک بہت چھوٹے حصے پر کام کرتا ہے اور متلی اور تکلیف کی نشاندہی کرتا ہے جو خواتین میں قے کا سبب بنتا ہے، حاملہ خواتین جو جی ڈی ایف 15 کے لیے زیادہ حساس ہیں وہ دن میں 50 بار متلی اور قے کا تجربہ کرسکتی ہیں۔

انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر سٹیفن او راہیلی کا کہنا ہے کہ ماں اس ہارمون کے بارے میں جتنی زیادہ حساس ہو گی، وہ اتنی ہی زیادہ بیمار ہو سکتی ہے،یہ جاننے سے ہمیں ایک اشارہ ملتا ہے کہ ہم اسے ہونے سے کیسے روک سکتے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ 100 میں سے ایک یا کبھی کبھار تین حاملہ خواتین ایچ جی سے متاثر ہوتی ہیں، ایک ایسی بیماری جو جنین کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ بہت سی خواتین جو اس کا شکار ہوتی ہیں انھیں پانی کی کمی سے بچنے کے لیے فلیوئڈز کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

تحقیق کےمطابق اس ہارمون کی سطح میں کمی یا اس کےافعال کو بلاک کرنے سے مارننگ سکنس کی روک تھام بھی کی جا سکتی ہے ،محققین نے بتایا کہ زیادہ تر حاملہ خواتین کو مارننگ سکنس کا سامنا ہوتا ہے جو خوشگوار تو نہیں ہوتا مگر کچھ خواتین میں اس کی شدت بدترین ہوتی ہے، ہم اب جان چکے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔

ہارمونز کی اعلی سطح، بشمول ایسٹروجن، بلڈ پریشر میں اتار چڑھاؤ، خاص طور پر کم بلڈ پریشر، کاربوہائیڈریٹ کی میٹابولزم میں تبدیلی، بہت زیادہ جسمانی اور کیمیائی تبدیلیاں جو حمل کو متحرک کرتی ہیں،کچھ خواتین کو خدشہ ہے کہ الٹی کی کارروائی سے ان کے پیدا ہونے والے بچے کو خطرہ ہو سکتا ہے الٹی اور ریچنگ پیٹ کے پٹھوں میں دباؤ ڈال سکتی ہے اور مقامی طور پر درد اور درد کا سبب بن سکتی ہے، لیکن الٹی کی جسمانی میکانکس بچے کو نقصان نہیں پہنچائیں گی۔

متعدد مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ اعتدال پسند صبح کی بیماری اسقاط حمل کے کم خطرے سے وابستہ ہے تاہم، طویل الٹی (جو پانی کی کمی اور وزن میں کمی کا باعث بنتی ہے) آپ کے بچے کو مناسب غذائیت سے محروم کر سکتی ہے اور آپ کے بچے کا پیدائش کے وقت کم وزن ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے-

جرنل نیچر میں شائع تحقیق میں محققین کے مطابق جب ماں کے پیٹ میں بچے کی نشوونما ہوتی ہے تو ایک ہارمون کی سطح بڑھتی ہے، ماں کا جسم اس ہارمون کا عادی نہیں ہوتاخاتون کا جسم اس ہارمون کے حوالے سے جتنا زیادہ حساس ہوگا، مارننگ سکنس کی شدت اتنی زیادہ ہوگی۔

تحقیق کے دوران مادہ چوہوں میں اس ہارمون کی سطح میں کمی لانے سے مارننگ سکنس کی روک تھام کا تجربہ کامیاب رہا تھا،اب تحقیقی ٹیم کی جانب سے اس طریقہ کار کو خواتین میں آزمایا جائے گا تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ طریقہ کار مارننگ سکنس کی روک تھام کے لیے کس حد تک مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

اگرچہ پہلے سامنے آنے والی طبی تحقیقات سے ہم یہ تو جاننے میں کامیاب ہوئے تھے کہ حمل کے دوران اس کیفیت یا بیماری کو جی ڈی ایف 15 سے منسلک کیا جاسکتا ہے، لیکن اب یہ معلوم ہو پایا ہے کہ ہم اس کے بارے اب تک بہت سی چیزوں سے نا واقف تھے۔

نیچر نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس نئی تحقیق میں کیمبرج یونیورسٹی، سکاٹ لینڈ، امریکہ اور سری لنکا کے سائنسدانوں نے حصہ لیا، جس سےمعلوم ہوا کہ حمل کےدوران خاتون کی بیماری کا تعلق بچہ دانی میں بننے والے ہارمون کی مقدار سےہےجتنے زیادہ ہار مو ن پیدا ہوں گے اتنی زیادہ بیماری کی علامات ظاہر ہوں گیں۔

تحقیق میں انہوں نے کیمبرج کے روزی میٹرنٹی ہاسپٹل میں خواتین کا مطالعہ کیا اور پایا کہ جن خواتین میں جینیاتی قسم ایچ جی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے ان میں ہارمون کی سطح کم ہوتی ہے جبکہ خون کی خرابی بیٹا تھیلیسیمیا میں مبتلا خواتین جو حمل سے قبل جی ڈی ایف 15 کی بہت زیادہ سطح کا سبب بنتی ہیں، ان میں ہارمون کی سطح کم ہوتی ہے۔ انھیں بہت کم متلی یا قے کا سامنا کرنا پڑا۔

یونیورسٹی آف کیمبرج میڈیکل ریسرچ کونسل میں میٹابولک ڈیزیز یونٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر او راہیلی نے وضاحت کی کہ ہارمون کو ماں کے دماغ میں اس کے انتہائی مخصوص ریسیپٹر تک رسائی سے روکنا بالآخر اس عارضے کے علاج کے لیے ایک مؤثر اور محفوظ طریقہ کی بنیاد بنے گا۔

Leave a reply