پاکستان کے خیبر پختونخوا کے علاقے کرم ایجنسی میں گزشتہ 85 دنوں سے فسادات اور بدامنی کی صورتحال جاری تھی، جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے فوج کی مدد کی درخواست کی ہے۔
فوج آج کرم ایجنسی کے علاقے ٹل پہنچ گئی، جہاں حالات بہت زیادہ خراب تھے۔ ان فسادات میں سینکڑوں افراد کی ہلاکتیں ہوئیں، جن میں ڈیڑھ سو کے قریب بچے بھی شامل تھے جو جان بحق ہو گئے۔ اس دوران پی ٹی آئی اور عمران خان کی جانب سے اس سنگین مسئلے پر کوئی ردعمل یا ٹویٹ سامنے نہیں آیا، جو اس بات کا غماز ہے کہ پی ٹی آئی نے حالات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔کرم ایجنسی کی صورتحال 85 دنوں تک بگڑتی رہی، لیکن پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے اس پر کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ جرگے کی بات کی گئی تھی لیکن جرگہ بھی بھیجنے میں ناکامی ہوئی۔ یہ صورتحال اس وقت اور بھی پیچیدہ ہو گئی جب پی ٹی آئی نے فوج سے مدد کی درخواست کی۔ لیکن یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر پی ٹی آئی حکومت کو شروع میں ہی اس مشکل کا پتا تھا تو اس نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوج کو کیوں نہیں بلایا؟
فوج کی مدد کی درخواست کرنے سے پہلے، پی ٹی آئی نے اس موقف کا اظہار کیا تھا کہ ان کے پاس دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں قراردادیں پاس کیں، جن میں کہا گیا کہ صوبہ خود ہی اپنے مسائل حل کرنے کے قابل ہے اور اس میں کسی بھی فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم اب انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنا ہی واحد حل ہے، تو پی ٹی آئی نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کی اور فوج کی مدد طلب کی۔ اس فیصلے کے پیچھے کیا عوامل ہیں، اس پر سوالات اٹھتے ہیں۔ کیا پی ٹی آئی کا فوجی آپریشن کے خلاف موقف محض سیاسی مفادات کے لیے تھا؟
ڈیرہ اسمعیل خان بھی اسی طرح کی بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ یہاں رات کے اوقات میں دہشت گردوں کا راج ہوتا ہے اور امن کی صورت حال بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کو وہاں بھی فوج کی مدد کی درخواست کرنا پڑے۔ اگر یہ دو اہم علاقے یعنی کرم ایجنسی اور ڈیرہ اسمعیل خان میں امن قائم نہیں کر سکے، تو سوال اٹھتا ہے کہ پی ٹی آئی پورے صوبے میں امن قائم کرنے کا دعویٰ کیسے کر سکتی ہے؟
یہاں یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں جس طرح سے امن قائم کرنے کے دعوے کیے گئے تھے، وہ اب مکمل طور پر ناکام نظر آ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت کا موقف تھا کہ وہ صوبے کے اندر خود حالات کو بہتر کر لیں گے، لیکن اب فوج کی مدد طلب کرنا ان دعووں کے ساتھ تضاد کا باعث بن رہا ہے۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کا اصل مقصد صوبے میں امن قائم کرنا تھا یا اس کی حکمت عملی میں کہیں نہ کہیں ٹی ٹی پی کی حمایت کا پہلو چھپا ہوا تھا۔اگر پی ٹی آئی ان دو علاقوں میں بھی امن قائم نہیں کر سکتی، تو یہ بات انتہائی اہم ہے کہ پارٹی کی حکومتی کارکردگی پر نظرثانی کی جائے۔ عوام کا اعتماد پی ٹی آئی پر اس بات کے بعد کس طرح قائم رہ سکتا ہے؟ اس کی کارکردگی اور حکومتی فیصلے عوامی سطح پر سنگین سوالات پیدا کر رہے ہیں، اور اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ پی ٹی آئی اس بحران کا کس طرح حل نکال پاتی ہے۔
کرم ایجنسی میں فوج کی آمد اور پی ٹی آئی کی جانب سے فوجی مدد کی درخواست ایک ایسی صورتحال کا عکاس ہے جس میں سیاسی قیادت نے اپنی ابتدائی پالیسیوں کو تبدیل کر دیا۔ اس سے نہ صرف پی ٹی آئی کی حکومتی پالیسیوں پر سوالات اٹھتے ہیں، بلکہ پورے صوبے میں امن قائم کرنے کے دعووں کی حقیقت بھی سامنے آ گئی ہے۔ اب وقت یہ بتائے گا کہ پی ٹی آئی ان مسائل کا حل کس طرح نکالتی ہے، اور آیا وہ عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کر پائے گی یا نہیں۔