1979کے انقلاب کے بعد ایران میں 12 بار صدارتی انتخابات ہو چکے ہیں اور 18 جون 2021 کو ایران میں تیرہویں صدر کے لیے الیکشن ہوئے جس میں ایران کے چیف جسٹس جناب ابراہیم رئیسی نے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ ایران کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ، ایران کا صدر کوئی چیف جسٹس ہو۔ ایران میں کئی سالوں سے الیکشن ہو رہے ہیں اور مختلف لوگ صدر کی حیثیت سے منتخب بھی ہو تے چلے آرہے ہیں لیکن اصل مدعے بحث یہ نہیں ہے کہ کون ایران کا صدر بنتا ہے، بنیادی بات تو ایران کے سیاسی نظام کو سمجھنا ہے۔ اگر ہم ایران کے سیاسی نظام کو سمجھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ آیا صدر کے پاس واقع ہی عملی و حقیقی طور پر اختیارات ہوتے ہیں یا ایران کو کوئی دوسری شخصیت چلاتی ہے۔
تو دوستو! یہاں پر ایک بات واضح کر لیں گے ایران کا صدر چاہے کوئی بھی بن جائے واحد، حتمی اور آخری اختیار ایران کے سپریم لیڈر جناب آیت اللہ خامنائی کے پاس ہوتا ہے۔ یہ ایران کے ہیڈ آف اسٹیٹ کہلاتے ہیں، ایران کی اسٹیبلشمنٹ جوڈیشری اور ٹیوی یہ سب اہم ادارہ ان کے حکم کے تابع ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایران کی خارجہ پالیسی خود ایران کے سپریم لیڈر طے کرتے ہیں۔ملک کی معاشی اور معاشرتی پالیسیاں ان کے دستخط کے بغیر لاگو نہیں کی جاسکتی۔ آپ اس کو آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ اگر صدر کے پاس اپنی کابینہ چننے کا اختیار ہے تو سپریم لیڈر کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی بھی کابینہ کے ممبر کو عہدے سے فارغ کر سکتے ہیں، یہاں تک کہ ملک کا صدر بھی اگر ملکی مفادات کے خلاف جا کر کوئی کام کرتا ہے تو وہ چاہے تو اس کو بھی ہٹا سکتے ہیں۔ تو جو کوئی بھی ایران کا صدر ہوں یا اس صدارتی دوڑ میں شامل ہوں ، اس کے ذہن میں ایک چیز بالکل واضح ہوتی ہے ،کہ اقتدار میں آکر آپ کسی بھی قسم کی کوئی پارٹی بندی ،کوئی مونوپولی(monopoly) ، کسی قسم کے اختیارات کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں،صدر کے پاس چاہے جتنے مرضی اختیارات هو وہ پھر بھی سپریم لیڈر سے نیچے ہی رہے گا۔
مختصر یہ کہ صدر صرف ایران میں پارلیمانی(parliamentary ) و سیکریٹیریل(secretarial) ذمہ داریاں ادا کرتا ہے۔ ایران کا ہر صدر چار سال کے لیے منتخب ہوتا ہے اور وہ مسلسل دو بار الیکشن میں کھڑا ہونے کا اہل رہتا ہے لیکن تیسری مرتبہ اسے اپنی جگہ کسی اور کو بطور صدر کھڑا کرنا پڑتا ہے۔ اس بار منتخب ہونے والے صدر ابراہیم رئیسی کا تعلق ہارڈ لائنر گروپ سے ہے۔ بنیادی طور پر ایران میں تین قسم کی سیاسی سوچ پائی جاتی ہے۔
1:ہارڈ لائنر (hardliner )
2:ماڈریٹ(moderate ) 3ریفورم سٹ (reformist)
ہارٹ لائنر وہ ہوتے ہیں جو ولایت فقہ پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی فقہ کے مطابق چلنااور قانون سازی کرنا ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے ماڈریٹ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ اعتدال پسند ہوتے ہیں، حسن روحانی جو کہ ابراہیم رئیسی سے پہلے صدر تھے ماڈریٹ گروپ سے تعلق رکھتے تھے، ان کی سوچ ملکی معیشت اور ترقی کے ساتھ ساتھ ولایت فقہ یعنی ہارڈ لائنر جیسی ہوتی ہے، ریفارمیسٹ وہ ہوتے ہیں جو ہارٹ لائنر کے بالکل مخالف سوچتے ہیں، ان کی پہلی ترجیح ملکی معیشت اور ترقی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا ہوتی ہے، ابراہیم رئیسی جیسا کہ ہم پہلے اوپر بتا چکے ہیں کہ ان کا تعلق ہارڈ لائنر گروپ سے ہے۔ انہوں نے اپنا کیرئیر بطور پروینشل پراسیکیوٹرجنرل(provincial prosecutor general) شروع کیا تھا، پھر ان کے پاس بہت اہم اداروں کے عہدے بھی رہے، جن میں ہیڈ آف جوڈیشری ڈپٹی چیف جسٹس اور اٹارنی جنرل ہیں۔

پھر انہوں نے جوڈیشری کو چھوڑ دیا اور القدس رضوی فاؤنڈیشن کے ساتھ منسلک ہوگئے۔ان کی کرپشن کے خلاف اقدامات دے کر سپریم لیڈر نے انہیں 2019 میں چیف جسٹس آف ایران لگا دیا۔ بطور چیف جسٹس کام کرتے ہوئے انہوں نے کرپشن کے خلاف اعلان جنگ کیے رکھا۔ ان کی کرپشن کے خلاف اقدامات کی وجہ سے یہ بہت سے لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکنا شروع ہوں گے، انہوں نے 2017 کے الیکشن میں بھی حصہ لیا تھا، لیکن حسن روحانی کے مقابلے میں یہ دوسرے زیادہ اکثریت لینے والے امیدوار تھے۔ 2021 کے الیکشن میں واضح نظر آرہا تھا کہ ایران کے خاص ادارے اور سپریم لیڈر خود یہ چاہتے ہیں کہ ایران کا اگلا صدر ابراہیم ریسی ہو، ابراہیم رئیسی کے مقابلے میں گارڈین کونسل نے ان امیدواروں کا انتخاب کیا جن کا کوئی بہت زیادہ اثر و رسوخ نہیں تھااور بڑے بڑے نام جیسا کہ تین بار اسپیکر رہنے والے علی لارے جانی اور دو بار صدر رہنے والے 1979کہ انقلاب کے بعد ایران میں 12 بار صدارتی انتخابات ہو چکے ہیں اور 18 جون 2021 کو ایران میں تیرہویں صدر کے لیے الیکشن ہوئے جس میں ایران کے چیف جسٹس جناب ابراہیم رئیسی نے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ ایران کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ، ایران کا صدر کوئی چیف جسٹس ہو۔ ایران میں کئی سالوں سے الیکشن ہو رہے ہیں اور مختلف لوگ صدر کی حیثیت سے منتخب بھی ہو تے چلے آرہے ہیں لیکن اصل مدعے بحث یہ نہیں ہے کہ کون ایران کا صدر بنتا ہے، بنیادی بات تو ایران کے سیاسی نظام کو سمجھنا ہے۔ اگر ہم ایران کے سیاسی نظام کو سمجھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ آیا صدر کے پاس واقع ہی عملی و حقیقی طور پر اختیارات ہوتے ہیں یا ایران کو کوئی دوسری شخصیت چلاتی ہے۔
تو دوستو! یہاں پر ایک بات واضح کر لیں گے ایران کا صدر چاہے کوئی بھی بن جائے واحد، حتمی اور آخری اختیار ایران کے سپریم لیڈر جناب آیت اللہ خامنائی کے پاس ہوتا ہے۔ یہ ایران کے ہیڈ آف اسٹیٹ کہلاتے ہیں، ایران کی اسٹیبلشمنٹ جوڈیشری اور ٹیوی یہ سب اہم ادارہ ان کے حکم کے تابع ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایران کی خارجہ پالیسی خود ایران کے سپریم لیڈر طے کرتے ہیں۔ملک کی معاشی اور معاشرتی پالیسیاں ان کے دستخط کے بغیر لاگو نہیں کی جاسکتی۔ آپ اس کو آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ اگر صدر کے پاس اپنی کابینہ چننے کا اختیار ہے تو سپریم لیڈر کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی بھی کابینہ کے ممبر کو عہدے سے فارغ کر سکتے ہیں، یہاں تک کہ ملک کا صدر بھی اگر ملکی مفادات کے خلاف جا کر کوئی کام کرتا ہے تو وہ چاہے تو اس کو بھی ہٹا سکتے ہیں۔ تو جو کوئی بھی ایران کا صدر ہوں یا اس صدارتی دوڑ میں شامل ہوں ، اس کے ذہن میں ایک چیز بالکل واضح ہوتی ہے ،کہ اقتدار میں آکر آپ کسی بھی قسم کی کوئی پارٹی بندی ،کوئی مونوپولی(monopoly) ، کسی قسم کے اختیارات کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں،صدر کے پاس چاہے جتنے مرضی اختیارات هو وہ پھر بھی سپریم لیڈر سے نیچے ہی رہے گا۔

مختصر یہ کہ صدر صرف ایران میں پارلیمانی(parliamentary ) و سیکریٹیریل(secretarial) ذمہ داریاں ادا کرتا ہے۔ ایران کا ہر صدر چار سال کے لیے منتخب ہوتا ہے اور وہ مسلسل دو بار الیکشن میں کھڑا ہونے کا اہل رہتا ہے لیکن تیسری مرتبہ اسے اپنی جگہ کسی اور کو بطور صدر کھڑا کرنا پڑتا ہے۔ اس بار منتخب ہونے والے صدر ابراہیم رئیسی کا تعلق ہارڈ لائنر گروپ سے ہے۔ بنیادی طور پر ایران میں تین قسم کی سیاسی سوچ پائی جاتی ہے۔
1:ہارڈ لائنر (hardliner )
2:ماڈریٹ(moderate ) 3ریفورم سٹ (reformist)
ہارڈ لائنر وہ ہوتے ہیں جو ولایت فقہ پر یقین رکھتے ہیں اور ہر صورت میں شریعت خداوندی نافذ کرنا ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے ماڈریٹ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اعتدال پسند ہوتے ہیں، حسن روحانی جو کہ ابراہیم رئیسی سے پہلے صدر تھے ماڈریٹ گروپ سے تعلق رکھتے تھے، ان کی سوچ ملکی معیشت اور ترقی کے ساتھ ساتھ ولایت فقہ یعنی ہارڈ لائنر جیسی ہوتی ہے، ریفارمیسٹ وہ ہوتے ہیں جو ہارٹ لائنر کے بالکل مخالف سوچتے ہیں، ان کی پہلی ترجیح ملکی معیشت اور ترقی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا ہوتی ہے، ابراہیم رئیسی جیسا کہ ہم پہلے اوپر بتا چکے ہیں کہ ان کا تعلق ہارٹ لائنر گروپ سے ہے۔ انہوں نے اپنا کیرئیر بطور پروینشل پراسیکیوٹرجنرل(provincial prosecutor general) شروع کیا تھا، پھر ان کے پاس بہت اہم اداروں کے عہدے بھی رہے، جن میں ہیڈ آف جوڈیشری ڈپٹی چیف جسٹس اور اٹارنی جنرل ہیں۔
پھر انہوں نے جوڈیشری کو چھوڑ دیا اور القدس رضوی فاؤنڈیشن کے ساتھ منسلک ہوگئے۔ان کی کرپشن کے خلاف اقدامات دے کر سپریم لیڈر نے انہیں 2019 میں چیف جسٹس آف ایران لگا دیا۔ بطور چیف جسٹس کام کرتے ہوئے انہوں نے کرپشن کے خلاف اعلان جنگ کیے رکھا۔ ان کی کرپشن کے خلاف اقدامات کی وجہ سے یہ بہت سے لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکنا شروع ہوں گے، انہوں نے 2017 کے الیکشن میں بھی حصہ لیا تھا، لیکن حسن روحانی کے مقابلے میں یہ دوسرے زیادہ اکثریت لینے والے امیدوار تھے۔ 2021 کے الیکشن میں واضح نظر آرہا تھا کہ ایران کے خاص ادارے اور سپریم لیڈر خود یہ چاہتے ہیں کہ ایران کا اگلا صدر ابراہیم ریسی ہو، ابراہیم رئیسی کے مقابلے میں گارڈین کونسل نے ان امیدواروں کا انتخاب کیا جن کا کوئی بہت زیادہ اثر و رسوخ نہیں تھااور بڑے بڑے نام جیسا کہ تین بار اسپیکر رہنے والے علی لارے جان اور دو بار صدر رہنے والے محموداحمدی نجات کو نااہل قرار دے دیا گیا۔ خود سپریم لیڈر کا جھکاؤ بھی ابراہیم رئیسی کی طرف تھا اس بات کا اشارہ ان کے ادارے کی جانب سے کیے گئے ٹیلیگرام میسج سے ملتا ہے جس میں انھوں نے لکھا تھا:” pursue justice and fight against corruption ” اور یہی خاصیت ابراہیم رئیسی کی تھی، ان کی وجہ شہرت بھی یہی تھی کہ وہ انصاف پسند اور کرپشن کے خلاف تھے، لہذا یہ بات واضح تھی کے ابراہیم رئیسی ہی صدر منتخب ہوں گے۔
بہرحال ایران کا صدر کوئی بھی بنے ایرانیوں کو اب اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا، پچھلی ایک دہائی سے ایران کے معاشی حالات بہت برے ہو چکے ہیں لوگوں کے پاس کام نہیں ہیں امریکہ کی سنکشنز (sanction) کی وجہ سے آئے دن مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے اور جو کمی بیشی رہ گئی تھی وہ ایک سال پہلے پھیلے کرونا وائرس نے پوری کر دی۔
ایران کے شہریوں سے الیکشن کے حوالے سے سوالات پوچھے گئے تو اکثر کا کہنا تھا کہ ہمیں ان الیکشن کا کیا فائدہ جب کہ ہمارے گھروں میں کھانے پینے کے لئے اور کمانے کے لئے کچھ بھی نہیں۔ نجات کو نااہل قرار دے دیا گیا۔ خود سپریم لیڈر کا جھکاؤ بھی ابراہیم رئیسی کی طرف تھا اس بات کا اشارہ ان کے ادارے کی جانب سے کیے گئے ٹیلیگرام میسج سے ملتا ہے جس میں انھوں نے لکھا تھا:” pursue justice and fight against corruption ” اور یہی خاصیت ابراہیم رئیسی کی تھی، ان کی وجہ شہرت بھی یہی تھی کہ وہ انصاف پسند اور کرپشن کے خلاف تھے، لہذا یہ بات واضح تھی کے ابراہیم رئیسی ہی صدر منتخب ہوں گے۔
بہرال ایران کا صدر کوئی بھی بنے ایرانیوں کو اب اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا، پچھلی ایک دہائی سے ایران کے معاشی حالات بہت برے ہو چکے ہیں لوگوں کے پاس کام نہیں ہیں امریکہ کی سنکشنز (sanction) کی وجہ سے آئے دن مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے اور جو کمی بیشی رہ گئی تھی وہ ایک سال پہلے پھیلے کرونا وائرس نے پوری کر دی۔
ایران کے شہریوں سے الیکشن کے حوالے سے سوالات پوچھے گئے تو اکثر کا کہنا تھا کہ ہمیں ان الیکشن کا کیا فائدہ جب کہ ہمارے گھروں میں کھانے پینے کے لئے اور کمانے کے لئے کچھ بھی نہیں۔

Shares: