کیا عراق میں خانہ جنگی کا خاتمہ اور امریکی افواج کا انخلاء ممکن ہو پائے گا؟ تحریر: محمد مستنصر

ایک طرف جہاں امریکا نے اتحادی افواج سمیت 31 اگست تک مکمل طور پر افغانستان چھوڑ جانے کا اعلان کیا ہے تو وہیں امریکا نے عراق سے بھی سال 2021 کے آخر تک اپنی افواج نکال کر عراق میں جنگی مشن ختم کرکے آئندہ صرف عراقی افواج کی تربیت،مشورہ سازی اور داعش کے خلاف درکار ضروری مدد فراہم کرنے تک محدود رہنے کا اعلان کیا ہے۔ عراقی حکومت کا بھی دعوی ہے کہ عراقی افواج میں صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنی سرزمین کا دفاع کر سکیں اس لئے عراق میں قیام امن کے لئے اب امریکی افواج کی ضرورت باقی نہیں رہی تاہم امریکا چاہے تو عراقی افواج کو انسداد دہشتگردی کی تربیت اور مشاورت میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔ امریکا اور عراق اپریل 2021 میں امریکی فوج کے مشن کو تبدیل کرنے پر متفق ہوئے تھے اور تب یہ امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ امریکا اپنی افواج عراق سے نکال لے گا تاہم بعض وجوہات کی بناء پر اس وقت امریکی افواج کے عراق سے انخلاء کا ٹائم فریم مقرر نہیں کیا گیا تھا۔ بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ درحقیقت عراق میں تعینات امریکی افواج کے مشن کی نوعیت تبدیل کی گئی ہے اور کوئی امریکی فوجی واپس نہیں بلایا جا رہا کیونکہ امریکا خطے میں اپنی موجودگی ناگزیر سمجھتا ہے اور اس مقصد کے لئے امریکا نے تمام خلیجی ممالک میں اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ امریکا میں بعض لوگ امریکی افواج کے عراق سے انخلاء کے حامی تو ضرور ہیں مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ امریکا کے ہاتھ سے عراق نکل جائے شاید اسی لئے امریکہ اپنے کچھ فوجی عراق میں موجود رکھنا چاہ رہا ہے تاہم یہ تعداد ابھی واضح نہیں۔

بظاہر عراق میں امریکی فوجیوں اور ماہرین کے موجود رہنے کا مطلب یہی ہے کہ عراق میں امریکی مداخلت برقرار رہے گی۔ امریکی صدر جوبائیڈن سمجھتے ہیں کہ امریکا کو اب مشرق وسطی سے اپنی افواج نکال کر چین اور روس کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ کو روکنے پر ذیادہ توجہ دینی چاہئے تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ افغانستان کی طرح عراق سے بھی امریکا اپنی افواج نکالنے پر مجبور ہوا ہے نہ کہ امریکا کو اپنے فوجی مشن میں کامیابی ملی ہے۔ سال 2003 میں عراق میں 1 لاکھ 60 ہزار امریکی اور ان کے اتحادی فوجی موجود تھے مگر اب یہ تعداد صرف 25 سو رہ گئی ہے جبکہ کچھ سپیشل فورسز بھی عراق میں موجود ہیں جو داعش کا مقابلہ کرنے میں مقامی افواج کی مدد کرتے ہیں۔ بین الاقوامی دفاعی ماہرین کا ماننا ہے کہ عراق میں امریکی افواج کی موجودگی خاصی متنازعہ بن چکی ہے بالخصوص جنوری 2020 میں جب ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کو عراقی ملیشیاء کے لیڈر ابو مہندی سمیت بغداد میں مارا گیا تو عراقی عوام نے امریکا کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا جبکہ عراقی پارلیمںنٹ میں بھی قرارداد پاس کی گئی جس میں امریکی افواج کے عراق سے انخلاء کا مطالبہ کیا گیا۔ یاد رہے کہ سال 2003 میں اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے عراق پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ذخیرہ کرنے اور عراق میں بین الاقوامی دہشتگردوں کے ٹھکانے موجود ہونے کے الزامات لگاتے ہوئے امریکی فوج کے اتحادیوں سمیت عراق پر حملہ کرنے کے احکامات جاری کئے تھے یوں تو امریکی صدر جارج بش نے عراق کو امن کا گہوارہ بنانے کے بلند و بانگ دعوے کئے تھے مگر عراق پر امریکی یلغار کے بعد کشیدگی اور بدامنی میں کئی گنا اضافہ دیکھنے کو ملا اور خانہ جنگی برپا ہو گئی

عراق سے امریکی فوج کے انخلاء کے حق میں امریکا سمیت دنیا کے کئی ممالک میں سول سوسائٹی کی طرف سے بڑے پیمانے پر مظاہرے کئے گئے جبکہ امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں نے بھی عراق سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کیا یوں سال 2011 میں امریکی فوج عراق سے چلی گئی تاہم داعش کی طرف سے عراق کے کچھ شہروں پر قبضے کے بعد عراقی حکومت نے دوبارہ امریکا سے مدد طلب کی تو سال 2014 میں دوبارہ عراق میں امریکی فوج پہنچ گئی اسی تناظر میں اب بھی بعض حلقوں کا ماننا ہے امریکی فوج کے مکمل انخلاء کے بعد عراق میں مختلف گروہوں کے مابین اقتدار کے لئے پانے جانے والے اختلافات خانہ جنگی کی صورت اختیار کر سکتے ہیں اور یہ صورتحال امریکی افواج کے عراق میں مزید قیام کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی امریکا اپنی افواج کے عراق سے انخلاء اور سالوں پر محیط عراق میں جاری جنگ کے خاتمے کے لئے سنجیدہ ہے یا پھر داعش سمیت دیگر شرپسند قوتوں کو جواز بنا کر خلیجی ممالک میں اپنا اثر ورسوخ قائم رکھنے کے لئے امریکی اور اتحادی افواج کی عراق سمیت دیگر خلیجی ممالک میں موجودگی کو یقینی بنانے کے لئے نیا گیم پلان سامنے لایا جائے گا۔
@MustansarPK

Comments are closed.