فرانس کی مختلف یونیورسٹیوں میں گزرے نو سال کے دوران ایک چیز بہت عام دیکھی کی وہاں کی کولیگ پروفیسر اور سائنسدان عورتوں کی شادیاں اکثر کسی پلمبر، الیکٹریشن، ٹرک ڈرائیور، دکاندار، ہیئر ڈریسر وغیرہ سے ہوئی ہوتی تھیں جو اکثر ان سے بہت ہی کم تعلیم یافتہ ہوتے تھے اور اکثر کی تنخواہیں بھی ان سے کم ہوتی تھیں۔ وہاں کسی عورت میں یہ کبھی نہیں دیکھا کہ اس نے اشاروں کنایوں میں بھی ایسی کوئی بات کی ہو یا اس پر شرمندگی محسوس کی ہو کہ اس کا شوہر یا بوائے فرینڈ حیثیت یا تعلیم میں اس سے کم ہے۔
پاکستان میں زیادہ تر مرد اپنے سے کم عمر، کم تعلیم یافتہ، کم کمانے والی یا بالکل ہی بے روز گار عورت سے شادی کرنے میں ہچکچاہٹ کا بھی مظاہرہ نہیں کرتے ہیں لیکن عورتیں اپنے سے کم عمر، کم تعلیم یافتہ، کم کمانے والے یا بے روز گار شخص سے شادی نہیں کرتی ہیں۔
اگر کسی وجہ سے ہو جائے تو ساری عمر اسے اس بات کے طعنے مارتی رہتی ہیں اور کہیں بتاتے ہوئے شرم محسوس کرتی ہیں۔
جو کچھ میں نے دیکھا ہے اس میں پڑھی لکھی لڑکیوں کے مشکل سے رشتہ ملنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے۔ وہ جس مقام پر پہنچ چکی ہوتی ہیں ان کے ہم پلہ مرد اکثر اپنے سے کم عمر لڑکیوں سے شادی کرنا پسند کرتے ہیں اور وہ انھیں آسانی سے مل بھی جاتی ہیں۔
ہمارے معاشرے کی پڑھی لکھی لڑکیوں اور ان کے والدین کو اس بارے سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ لڑکیوں کا دن بدن تعلیم کی طرف رجحان بڑھتا جارہا ہے لیکن اعلیٰ تعلیم مہنگی ہونے اور اعلیٰ تعلیم کے بعد بھی جاب کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں میں کم ہو جا رہا ہے، جس کی وجہ سے یہ مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جائے گا۔