کیا مادری زبان انسانی معاشرے میں یکجہتی،ادب اور ثقافتی شعورکا نام ہے؟
کیا مادری زبان انسانی معاشرے میں یکجہتی،ادب اور ثقافتی شعورکا نام ہے؟
تحریر :ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھرجلالوی
ہر سال اقوام متحدہ کی طرف سے 21 فروری کو مادری زبانوں کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے دنیا میں دن منایا جاتا ہے۔مادری زبان کیا ہے؟ اس کی سماج میں کیا حیثیت ہے؟ اس کا انسانیت کی بقاء و خوشحالی میں کوئی کلیدی کردار ہے؟چند سوالات کی تحقیقات کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر کائنات کی تخلیق میں مرکزی اہمیت موضوع انسان ہے تو پھر لسان کی بدولت انسان عظیم سے عظیم تر، فن سے فنون لطیفہ تک ہر شے کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ہر چیز کی سجاوٹ زبان کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔نامعلوم سے معلوم تک ، زمین سے آسمان تک کا ناقابل تسخیر سفر زبان کا مرہون منت ہے۔جس کو لینگویج بھی کہا جاتا ہے۔
علم وادب کے سارے خزانوں کی چابی مادری زبان ہے،جس کو عرف عام میں ماں بولی سے بھی جانا جاتا ہے۔زبان سے ادب اور ادب سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔دنیا کے پہلے انسان نے ماں بولی میں اپنے اندرونی و بیرونی احساسات و جذبات کو پرکھا ہوگا۔دنیا کے تمام مذاہب کی روحانی اخلاقی اقدار کی کتابوں میں مادری زبانوں کے نمونے نمایاں ہیں۔قرآن مجید مختلف زبانوں اور قبائل کے گروہ سے انسانوں کی شناخت کرتاہے۔آدمی اپنی مشکل کو حل کرنے کے لیے ہمیشہ مادری زبان کا سہارا لیتا ہے۔جو لوگ مادری زبانوں سے محبت نہیں کرتے دراصل وہ لوگ اپنے انسان نہ ہونے کی دلیل پیش کرتے ہیں۔احترام آدمیت ہی اصل میں محبت واتحاد انسانیت ہے۔درخت اگر جسم ہے تو پھل یعنی رس اس کی روشن روح ہے۔
ہر عہد میں ہر نبی نے لوگوں کو ان کی ماں بولی میں فلسفہ حقانیت و واحدنیت کی تلقین کرتے رہے۔دنیاکی خوبصورتی و خوشحالی عورت سے مزین ہے۔عورت جس کا حسین ترین چہرہ ماں کی شکل میں ہے۔آج بھی بچہ اپنی ممتا کی گود میں سکون واطمینان اور مکمل اعتماد و آزادی محسوس کرتا ہے۔خود اللہ کریم نے انسان سے محبت کے پیمانے کو ماں سے ستر گناہ زیادہ محبت سے تشبیہ دی ہے۔اگر ماں سے بچے کی تہذیب وتمدن اور معاشرہ میں اخلاقیات کی ضرورت پوری ہوتی ہے تو دراصل ماں سے محبت اور روحانی فیض مادری زبان کے بحر بیکراں سے ممکن ہے۔ماں باپ کا احترام اصل میں ماں بولی کے احترام کا عملی آغاز ہے۔ماں کا دودھ اور اس کی شہد جیسی مٹھاس بھری تربیت ہر ایک کو دنیا کا کامیاب تجربہ کار انسان بناتی ہے۔انسان کے بہترین فہم وشعور کی پہلی درسگاہ ماں کی لوری اور ماں بولی ہی ہے۔یہ وہ شیشہ ہے جس میں انسان کی علمی،ادبی،روحانی،سماجی،تاریخی اور ثقافتی ورثے کی ہر ممکن چیز نظر آتی ہے۔بچہ دل و دماغ میں سب سے پہلے ماں کی خوبصورت فکری خوشبو بھری آواز سے اپنے آپ کو معطر کرتاہے۔
دنیا کی کسی بھی لسان یا زبان سے نفرت کا مطلب انسان کے وجود اور احترام انسانیت کے فلسفے کو جلانے کے مترادف ہے۔انسان کے اپنے ضمیر کی ہر بات کو یقینی آسان ترین طریقے سے صرف مادری زبان میں ہی ابلاغ کرسکتا ہے۔مادری زبان آپس میں اتحاد،یکجہتی اور احساس محبت کو فروغ دیتی ہے۔حسد اور نفرت کوختم کرتی ہے۔ایک دوسرے کے ساتھ خوشحالی اور تعمیر نو کا سبب بنتی ہے۔پاکستان ایک کثیر خوبصورت زبانوں اور ثقافتوں کا محبتوں بھرا اعجاز و گلدستہ ہے۔پاکستان کی تمام مقامی زبانیں قومیت و اتحاد کا مضبوط ترین چہرہ ہیں۔ہر زبان کا فروغ علم و دانش کے اثاثے میں اضافے کا باعث ہے۔ہر ماں مقدم و محترم ہے۔اسی طرح ہر ماں بولی بھی مکمل عزت و توقیر کی علامت ہے۔
انسانیت کے ورثے کی کنجی مادری زبان ہے۔
پاکستان میں اردو، سندھی،پنجابی،سرائیکی،پشتو،بلوچی ،براہوی،ماڑواری،ہندکو،پوٹھوہاری، بلتی ،پہاڑی وغیرہ میری مادری زبانیں میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور روحانی فیضان کا حصول ہیں۔مادری زبان ہی آسان ترین عملی مثالی علم و تربیت کے ساتھ اصلی آگاہی کا زینہ ہے۔ہر زبان کا شاعر ، ادیب اور فنکار اپنی مادری زبان کا اعلی ترین مہذب نمونہ ہے۔جس طرح باغ میں ہر پھول کی اپنی ہیئت اور خوشبو مسلمہ ہے۔ اس طرح ہر ماں بولی کا اپنا مکمل وجود فوک وزڈم ہے۔
ماہرین لسانیات و سماجیات کے ساتھ میڈیکل سائنس بھی اب مادری زبان کی شناخت،حقیقت اور عرفان وبرکات کو مان چکی ہے۔جس ملک و قوم نے اپنی مادری زبانوں کی عزت و عظمت کو سمجھا اور جانا اس نے دنیا میں راج کیا بھی ہے اور کر رہیں ہیں۔اگر تمام سائنسی علوم کو مادری زبانوں میں منتقل کر دیا جائے تو اعلی ترین ہنرمند افراد پیدا ہوں گے۔جو ناصرف اپنے ملک و قوم کو ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ترقی و خوشحالی کا قیمتی سرمایہ ثابت ہو ں گے۔
تمام صوفیاء کرام نے ہمیشہ لوگوں کی بھلائی ، فلاح، روحانی و معاشرتی اقدار میں ماں بولی کا ہی کامیاب راستہ اپنایا۔سرائیکی زبان کے مہان صوفی بزرگ شعراء کرام میں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی ،حضرت خواجہ غلام فرید ،جدید رفعت عباس،سندھی زبان کے مہان صوفی بزرگ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی،حضرت سچل سرمست ،بلوچی زبان حضرت مست توکلی، پشتو رحمان بابا ،خوشحال خان خٹک، پنجابی شاعر حضرت وارث شاہ رحمتہ اللہ علیہ سب نے مادری زبانوں میں اظہار رائے اور امن و محبت کا پیغام دیا ہے، انسانی خوشی اور غم کا بہترین مدعا ماں بولی ہوتی ہے۔ سرائیکی علاقے میں سرائیکی یونیورسٹی اور سرائیکی بنک کے قیام سے وسیب کے لوگوں میں خود اعتمادی اور کلچرل ادبی سرگرمیوں میں خوبصورت اضافہ ہوگا-ضلع چترال پاکستان سمیت دنیا بھر میں کثیر اللسانی خطہ ہونے کا خوبصورت اعزاز بھی رکھتاہے۔
دنیا کے نوبیل یافتہ ماہر سماجیات ولسانیات نوم چومسکی زبانوں کی اہمیت کو سائنسی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ دل اور دماغ کے درمیان مضبوط ترین پل راستہ زبان ہے۔انسانی جسم میں لسان کو مرکزی کردار سمجھا جاتا ہے۔مادری زبان کی افادیت یہ ہے کہ فطرت اس کی خود حفاظت کرتی ہے۔لیکن اگر اس میں بار بار رکاوٹ ڈالی جائے تو متروک ہونے کا شدید ترین خطرہ نمودار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔کسی بھی انسان کی مادری زبان سے نفرت دراصل اس انسان کو غلام اور حقیر تر بنانے کی گھٹیا ترین کوشش ہوتی ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں براہوی 1 فیصد ،ہندکو 2 فیصد، بلوچی 3، پشتو 8 فیصد،اردو انگلش 8 فیصد، سرائیکی 10 فیصد ،سندھی 12 فیصد جب کہ پنجابی 48 فیصد بولی جاتی ہے۔ لیکن 2010ء میں ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان سرائیکی کو مانا گیا ہے۔سرائیکی کو آم و شہد کی طرح دنیا کی میٹھی ترین بھی کہا جاتا ہے۔سرائیکی اب دنیا کی عالمی زبانوں کےگروہ میں شمولیت اختیار کر چکی ہے۔زبانوں اور ثقافتوں کا تنوع آپس میں امن، اتحاد ویکجہتی کی فضا قائم کر تا ہے۔
مادری زبان کا تحفظ انسان کی حکمت و دانش کو محفوظ کرنے کا سبب ہے۔زبان بھی عروج و زوال کے مراحل سے گزرتی ہے۔کسی بھی زبان کو اگر سرکاری سرپرستی حاصل نہ ہو تو وہ زبان ختم ہو سکتی ہے کائنات کی تخلیق بھی زبان مخصوص آواز کن فیکون سے ہوئی۔پاکستان میں زبانوں و لہجوں میں باگری،آیر، بدیشی، کھوار، کبوترا،فارسی،گرگلا،لواری، کچھی، کلامی،ماڑواری،سانسی، دری، لواری کھیترانی ،گجراتی، بروشسکی، شینا، توروالی، پھالولہ، اوڈ، ارمری، اوشوجو، واگھری، واخی، یدغہ کاٹی، کشمیری بھایا ،جنداوڑا، کوہستانی، چلیسو بلتی وغیرہ کو شدید ترین خطرات کا سامنا ہے۔اگر ایک انسان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے تو پھر کیا ایک لسان مادری زبان کا تحفظ پوری انسانیت کے تحفظ کے برابر نہیں ہے۔
ہمیں بھی سوئٹزرلینڈ کی طرح ہر زبان کو قومی زبان کا درجہ دینا چاہیے۔انسانیت کے عظیم ترین علمی، ادبی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ میں سب کو بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔21فروری کا دن دراصل مادری زبان کی برکات و خلوص بھرا محبت انسانیت کا دن ہے۔ہر خوبصورت پرندے کی آواز کی انفرادیت اصل ہر لسان کے الگ وجود کے تسلیم و رضا کا فطری آسان ترین نمونہ ہے۔انسانیت ادب کی تخلیقات مادری زبان سے ممکن ہے۔اس کے فروغ کے لیے ہم سب کو عملی طور کام کرنے کی ضرورت ہے۔میرا حکومت پاکستان سے پر زور مطالبہ ہے کہ مادری زبانوں کے فروغ کے لیے ہر تحصیل سطح پر انسٹیٹیوٹ بنائیں جائیں۔پرائمری سے میٹرک تک کی تعلیم کا ذریعہ مادری زبان ہونا چاہیے۔سرائیکی وسیب میں سرائیکی زبان کو فوری طور پرائمری سے میٹرک تک لازمی سبجیکٹ کے طور سکولوں میں پڑھائی جائے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ شعراء کرام سرائیکی زبان وادب کے ہیں۔سرائیکی مضمون کو سی ایس ایس اور پی ایم ایس امتحانات میں فوری شامل کیا جائے۔ سرائیکی سبجیکٹ کے عملی فروغ کے لیے سکولز ٹیچرز آسامیاں پیدا کی جائیں۔سرائیکی میٹرک و انٹرمیڈیٹ کلاسز کی کتابوں کی PTCB سے فوری چھپائی کرائی جائے۔اب الحمدللہ سرائیکی ایف اے فرسٹ ائیر کتاب حکومت پنجاب نے چھاپ کر بہترین تاریخی کام کیا ہے ۔تمام صوبوں میں باقی مضامین کی سرائیکی مضمون کو بھی فوری شامل نصاب کیا جائے ۔ سرائیکی لٹریری کلچرل، سرائیکی بنک و سرائیکی یونیورسٹی جیسے قومی اداروں کے فوری قیام سے سرائیکی خطے میں شعور ،شرح خواندگی ،روحانی، معاشی،سماجی اخلاقیات کے ساتھ ثقافتی ورثے میں بے پناہ اضافہ کے ساتھ علمی، ادبی سرگرمیوں کو فروغ ملےگا۔
مادری زبان انسان کو دلیر، آزاد، مضبوط ترین اور کامیاب تجربہ کار بناتی ہے۔مادری زبان کی بدولت آدمی میں خوداعتمادی اور ہنرمندی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔قومی اسمبلی و سینٹ میں اردو، انگلش کے ساتھ سرائیکی،پنجابی،سندھی،بلوچی،پشتو وغیرہ کوبھی سوئٹزرلینڈ کی طرح فوری طور پر تمام مادری زبانوں کوقومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔اس سے آپس میں امن،ثقافت،محبت واتحاد،یکجہتی اور استحکام پاکستان کے فلسفے کو فروغ ملے گا۔پاکستان تاریخی،روحانی، ادبی،تعلیمی،جغرافیائی ، معاشی،معاشرتی،سیاسی،علاقائی اور اخلاقی اقدار میں مضبوط ہوگا۔
کیا حال سناواں دل دا،کوئی محرم راز نہ مل دا ( خواجہ فرید)