ہمارے معاشرے میں اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ہزاروں کیس ایسے ملیں گے جنہوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ۔اپنی ہی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں سے ختم کرنے کے پیچھے کیا مسائل ہو سکتے ہیں ۔آج کل نوجوان نسل جس میں بالکل برداشت ختم ہو گئی ہے ۔محبت اور عشق کے پیچھے اپنے جانوں کو ہی اپنے ہاتھوں سے ختم کر رہے ہیں ۔دوسری بڑی وجہ گھریلو مسائل بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر خاص کر نوجوان نسل مسائل کے حل کے لیے واحد خودکشی کا راستہ اپنانا شروع ہو گئے ہیں ۔کیا ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں کا دست بازو نہیں بن سکتا جو گھریلو مسائل بے روزگاری تنگ دستی کی وجہ سے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر رہے ہیں۔خدارا اپنے ارد گرد نظر رکھیں ایسے لوگوں کا دست بازو بنے ۔

گزشتہ دنوں ہمارے شہر پیرمحل میں بھی ایک ایسے نوجوان نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ۔جس کا تعلق غریب گھرانے سے تھا۔اس نوجوان کا نام عدنان تھا جو فٹ بال کا پلیئر تھا جو گھریلو مسائل کا شکار تھا اس کے قریبی دوستوں سے پتہ چلا کہ وہ فٹ بال کھیلنا چاہتا تھا لیکن گھر والے اس کو کام کرنے پر فورس کرتے تھے ۔ظاہری بات ہے کہ ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا اچھے کام پر لگ جائے روزگار کمانا شروع کر دے ۔لیکن عدنان کافی دنوں سے ڈپریشن کا شکار تھا ۔بس اس نے زہریلی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ۔جب اس کی موت کی خبر سنی تو یقین جانیے کہ رونگٹے کھڑے ہو گئے اور دل بہت افسردہ تھا ۔کہ ہمارے نوجوانوں کو کیا ہو گیا ہے ۔کیا مسائل کا حل خودکشی ہی رہ گئی ہے کیا اس کے بغیر مسائل کو شکست نہیں دی جا سکتی ۔بحیثیت مسلمان ہمیں بھی معاشرے میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیے ۔اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں مزہ تو تب ہے اگر دوسروں کے لیے جیا جائے ۔

اسلام میں خود کشی کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خودکشی کرنے والے کا نماز جنازہ بھی نہیں پڑھایا ۔
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمايا: جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پي كر اپنے آپ كو قتل كيا تو جہنم كى آگ ميں زہر ہاتھ ميں پكڑ كر اسے ہميشہ پيتا رہے گا، اور جس نے كسى لوہے كے ہتھيار كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ ہتھيار اس كے ہاتھ ميں ہو گا اور ہميشہ وہ اسے جہنم كى آگ ميں اپنے پيٹ ميں مارتا رہے گا۔

ناامیدی اور امید ایک ساتھ جڑے دو راستے ہیں، جس میں سے امید کا انتخاب خدا کے وہ بندے کرتے ہیں جنہیں اس پر بھروسہ ہوتا ہے۔ زندگی کا سفر چاہے کتنا ہی دشوار ہو ان کی آخرت سنور جاتی ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ ناامیدی میں خودکشی کا حرام راستہ اختیار کرتے ہیں، وہ نا تو زندگی کو صحیح طور گزار پاتے ہیں بلکہ اپنی آ خرت بھی تباہ و برباد کر دیتے ہیں ۔
ان معمولی پیار،عشق اور محبت کی باتوں اور گھریلو مسائل کو سر پر سوار کرکے زندگی کے مقصد کو بھلا دینا سب سے بڑی ناکامی ہے۔
زندگی خدا کا دیا ہو انمول تحفہ ہے جس کی قدر نا کرنا خدا کی قدرت سے منحرف ہونا ہے۔ میری تو والدین سے صرف اتنی گزارش ہے کہ اپنے بچوں کی خوشیوں کا خیال رکھیں۔

Shares: