سوچتی ہوں کہ ملے حلم میں گوندھا ہوا شخص
علم اوتار سا اور لہجہ پیمبر جیسا
شہلا شہناز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعارف : آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کی ایک خوب صورت پاکستانی شاعرہ اور ماہر تعلیم پروفیسر شہلا شہناز صاحبہ کا تعلق فیصل آباد پنجاب سے ہے وہ 7 اپریل 1976 میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے والد صاحب کا نام محمد یونس اور والدہ محترمہ کا نام صفیہ ہے۔ وہ 4 بہن بھائی ہیں جن میں شہلا سب سے بڑی ہیں۔ انہوں نے تمام تر تعلیم اپنے پیدائشی شہر فیصل آباد میں حاصل کی جبکہ ماسٹرز پنجاب یو نیورسٹی لاہور سے کیا۔ ان کی مادری زبان پنجابی ہے اس کے علاوہ اردو اور انگریزی زبان پر بھی عبور رکھتی ہیں ۔ انہوں نے اسکول کے زمانے سے ہی شاعری شروع کی ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد وہ محکمہ تعلیم پنجاب میں لیکچرر مقرر ہو گئیں اوراس وقت اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کر رہی ہیں ۔ 7 اگست 2014 میں ان کی شادی ہوئی اور ماشاء اللہ وہ ایک ہونہار بیٹے کی ماں ہیں۔ شہلا شہناز صاحبہ بہت خوب صورت شاعری کرتی ہیں لیکن درس و تدریس اور گھریلو مصروفیات کے باعث مشاعروں میں بہت کم شریک ہوتی ہیں اور اب تک انہوں نے اپنی شاعری کی کوئی کتاب بھی شائع نہیں کی ہے ۔ علامہ اقبال، میر تقی میر، پروین شاکر ، یاسمین حمید اور مجید امجد ان کے پسندیدہ شعراء میں شامل ہیں۔
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تری قربت کہ سطر ِ خوشنما لکھنے لگی
تُو پلٹ آیا تو میں کتنا نیا لکھنے لگی
ایک ٹھوکر تک ہے یہ انبار ِخشت و سنگ سب
راہ کی دیوار کو میں راستہ لکھنے لگی
تم مجھے اس آنکھ کی پُتلی میں دیکھو گے تمام
یہ جو میں حرف ِ ہنر کو آٸنہ لکھنے لگی
دن کو خط بھیجا تو اُس میں چھاٶں تہہ کر کے رکھی
رات کو مکتوب لکھا تو دیا لکھنے لگی
کور آنکھوں کے لیے میں نے تراشے تھے نجوم
گونگے ہونٹوں کے لٸے حرف ِ صدا لکھنے لگی
لہر کو دریا کی مٹھی میں پڑا رہنے دیا
اور صحراٶں کی قسمت میں گھٹا لکھنے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھا کوئی شخص مرے دل میں سمندر جیسا
اب تو سناٹا ہے ہر سو میرے اندر جیسا
ہجر لذت سے تہی وصل بھی پھیکا پھیکا
میرے پہلو میں یہ کیا نصب ہے پتھر جیسا
شہلا شہناز