26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا جوڈیشل کمیشن کو فل کورٹ کی تشکیل پر ڈائریکشن نہیں دی جا سکتی؟کیا ہمیں ہر بات پر جوڈیشل کمیشن کی طرف دیکھنا پڑے گا؟کیا کوئی قانون اس بنچ کو فل کورٹ کا آرڈر پاس کرنے سے روکتا ہے؟کیا ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ سے بھی اوپر ہے؟
سپریم کورٹ آئینی بنچ میں 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8رکنی بنچ نے سماعت کی،وکیل اکرم شیخ نے کہاکہ گزارش ہے وکلا کو دلائل دینے کیلئے وقت مقرر کردیں،جسٹس امین الدین نے کہا کہ وقت کی پابندی سب پر لازم ہوگی، وکیل عابدزبیری نے بنچ پر اعتراضات سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہاکہ عدالتی فیصلہ پیش کرنا چاہوں گا جس میں بنچ اور فل کورٹ میں تفریق بیان کی گئی ہے،جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ پھر ہمیں فل کورٹ کو بنچ کہنا چھوڑنا ہوگا،جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا جوڈیشل کمیشن کو فل کورٹ کی تشکیل پر ڈائریکشن نہیں دی جا سکتی؟کیا ہمیں ہر بات پر جوڈیشل کمیشن کی طرف دیکھنا پڑے گا؟کیا کوئی قانون اس بنچ کو فل کورٹ کا آرڈر پاس کرنے سے روکتا ہے؟کیا ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ سے بھی اوپر ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ جوڈیشل کمیشن کوئی غیرآئینی حکم دیتا ہے تو سپریم کورٹ اس کو ریورس کر سکتی ہے ،جوڈیشل کمیشن پر تمام ججز کو آئینی بنچ کا جج نامزد کرنے پر کوئی قدغن نہیں،جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آپ آئینی ترمیم سے قبل کے ججز پر مبنی بنچ کیوں چاہتے ہیں،جسٹس امین الدین نے کہاکہ قانون کے مطابق اپنے اپنے اختیارات ہیں،جسٹس محمد علی نے کہاکہ آپ کہہ رہے ہیں جوڈیشل کمیشن فل کورٹ تشکیل دے سکتا ہے،عدالت نے کہاکہ آپ کہہ رہے ہیں جوڈیشل کمیشن کو فل کورٹ تشکیل دینے کی ڈائریکشن دی جا سکتی ہے،جسٹس محمد علی نے استفسار کیا آپ کا موقف کیا ہے؟فل کورٹ بنائیں یا جوڈیشل کمیشن کو ڈائریکشن دیں؟
وکیل عابد زبیری نے استدعا کی کہ فل کورٹ آئینی بنچ تشکیل دے،عدالت نے کہاکہ آپ کی تعریف کے مطابق کمیٹی کے پاس فل کورٹ بنانے کا اختیار نہیں،وکیل نے کہاکہ چیف جسٹس آئینی بنچ کے سربراہ ہوں تو فل کورٹ تشکیل دے سکتے ہیں،