کیا سیاست کے علاوہ بھی کوئی جہاں ہے؟

ہم بحیثیت قوم بیمار اور جنونی ہو چکے ہیں اور وہ ایسے کہ سیاست دان کیا کہتے ہیں یا کرتے ہیں جبکہ میڈیا ہمیں کیا فیڈ کرتا ہے، اور ہمیں کیا قبول کرنے کی شرط لگائی گئی ہے لہذا ہم اس میں اتنے پھنس چکے ہیں کہ باقی تمام معاملات کو پس پشت ڈال دیا ہے اور اس طرف ہمارا دھیان بھی نہیں.

میڈیا ہمیں وہی فیڈ کرتا ہے جو ہم چاہتے ہیں، اور جو ہم چاہتے ہیں وہ زیادہ تر گندگی اور گھٹیا ہوتا ہے۔ ہم اسے اپنے روزانہ کے مینو کے طور پر قبول کرتے ہیں جبکہ کوئی ٹھوس خبر نہ ہونے پر بھی میڈیا نان ایشوز کو ایشوز بنا دیتا ہے۔اور ہم اس سب کو ناصرف قبول کرتے بلکہ ہضم بھی کرتے ہیں.

ہم جیسے تالاب میں مینڈک کی طرح مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور اس گندے تالاب میں کودتے رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے نقطہ نظر کو وسیع کرنے اور وہاں کی وسیع دنیا کو دیکھنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اور بھی بہت ساری دکھ بھری داستانیں ہیں جو ہمیں پکار رہی ہیں.

جیسے کہ مثال کے طور پر پچھلے سیلاب میں، 10 ملین لوگ تباہ ہوئے اور یہ لوگ اب بھی خوراک، کپڑوں اور بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس کے بعد پھر سیلاب آیا۔ ابتدائی ردعمل کے بعد ضرورت مندوں تک پہنچنے کے لیے رائے عامہ کتنی متحرک ہوئی ہے؟ ہم اپنے ہی لوگوں کو بھول چکے ہیں تو پھر یہ شکایت کیوں کریں کہ عالمی برادری نے اب تک صرف 50 فیصد امداد کا وعدہ کیا ہے؟

دوسری جانب مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو ایک دن میں دو وقت کا کھانا تک کھانے کی اوقات نہیں رکھتے۔ جبکہ بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ جاری ہے جسے اب لوگوں نے اسے اپنے روزانہ یا ہفتہ وار کھانے کے حصے کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ حالانکہ وہ پریشان حال ہیں اور نامید ہیں.

شاہد ستار نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں میں 75 فیصد پاکستانی موسم اور موسمیاتی آفات سے متاثر ہوئے ہیں جس کا تخمینہ 29 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان بنتا ہے (ورلڈ بینک گروپ 2022)۔ ہم نے مرکزی ذرائع ابلاغ یا کی بورڈ جنگجوؤں کے ذریعے اس پر بحث کیوں نہیں کی؟ لہذا ہمیں ذیلی متن میں شامل مسائل کو حل کرنے کی شدید ضرورت ہے کیونکہ یہی اصل مسائل ہیں۔ اور ہمیں اپنا وقت فضول میں ضیاع کرنے سے بہتر ہے کہ ان مسائل پر توجہ دیں.

آخر میں صرف اتنا کہوں گی کہ ہمیں اپنے نقطہ نظر کو وسیع کرنے اور اہم مسائل پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے اور سیاست سے بالاتر ہوکر اپنی قوم کو متاثر کرنے والے حقیقی مسائل کو حل کرنا ہوگا لہذا آئیے ہم ایک بیمار اور جنونی قوم نہ بنیں بلکہ ایک ایسی قوم بنیں جو اپنے بہتر مستقبل کے لیے کام کرنے کو تیار ہو۔

Shares: