امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کی کوشش ہے کہ وہ ایک بار پھر مزدور طبقے کے ووٹرز کی حمایت حاصل کر سکیں۔ حالیہ انتخابی مہم میں، ٹرمپ نے اپنا ایک منفرد انداز اپنایا ہے، جس کا مقصد کم آمدنی والے ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔ امریکا کی مڈل کلاس کی تعداد کم ہو رہی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ مزدور طبقے اور کم آمدنی والے افراد کے ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق، 1971 میں کم آمدنی والے افراد کی تعداد 27 فیصد تھی، جو 2023 میں بڑھ کر 30 فیصد ہو گئی ہے۔ٹرمپ، جو کہ ایک ارب پتی کاروباری شخصیت ہیں، نے ہمیشہ خود کو مزدور طبقے کا حامی ظاہر کیا ہے۔ جب ایک حالیہ سروے میں مزدور طبقے کے ووٹرز سے پوچھا گیا کہ پچھلے 30 سالوں میں کس صدر نے مزدور خاندانوں کے لیے سب سے زیادہ کام کیا، تو 44 فیصد نے ٹرمپ کا انتخاب کیا، جب کہ صرف 12 فیصد نے موجودہ صدر جو بائیڈن کا نام لیا۔
ٹرمپ نے حال ہی میں پنسلوانیا کے فیسٹرول ٹریوس میں ایک مکڈونلڈ کے باہر ایک منفرد موقع پر فرینچ فرائز پیش کیے، جس میں انہوں نے اپنے حریف، نائب صدر کاملا ہیرس کا مذاق اڑایا۔ ہیرس نے بھی اپنی مہم میں مزدور طبقے کی اہمیت پر زور دیا ہے، مگر ٹرمپ کے ساتھ موازنہ میں وہ کامیاب نظر نہیں آتیں۔ٹرمپ کی عوامی شخصیت ایک کامیاب کاروباری شخص کی ہے، حالانکہ انہوں نے خود کو مزدور طبقے کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں کی ہیں۔ انہوں نے ایک بار کہا، "میں اوور ٹائم کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں۔ مجھے اوور ٹائم دینا ناپسند تھا۔” اس کے باوجود، وہ خود کو مزدور طبقے کا وکیل ظاہر کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ خود کو عام مزدوروں کی طرح پیش کریں۔ وہ بار بار یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ انہی کے جیسے ہیں، اور یہی بات ان کے حامیوں کے لیے جذباتی طور پر اہم ہے۔ 2016 میں جب وہ پہلی بار انتخابات میں حصہ لے رہے تھے،
اس وقت سے ہی یہ بات واضح تھی کہ انہیں مزدور طبقے کی حمایت حاصل ہے۔ٹرمپ نے 2020 میں دوبارہ انتخابی مہم میں کامیابی حاصل نہیں کی تھی، اور اب ان کا حریف بائیڈن کی نائب، ہیرس ہیں۔ ہیرس کی کوشش ہے کہ وہ بھی مزدور طبقے کے مسائل کو اجاگر کریں، مگر انہیں اس طبقے میں حمایت حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔بہت سے مزدور ووٹرز نے حالیہ دہائیوں میں ڈیموکریٹک پارٹی سے منہ موڑ لیا ہے، کیونکہ ان کا احساس ہے کہ پارٹی نے عالمی سطح پر ملازمتوں کے نقصان جیسے مسائل کو نظر انداز کیا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ٹرمپ نے کم آمدنی والے ووٹرز میں یہ احساس پیدا کیا ہے کہ انتخابی نظام ان کے خلاف ہے۔ ٹرمپ نے 2020 میں اپنی شکست کے بعد بار بار یہ دعویٰ کیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی، حالانکہ یہ ایک غلط دعویٰ ہے۔یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا ٹرمپ ایک بار پھر مزدور طبقے کے ووٹرز کی حمایت حاصل کر سکیں گے یا نہیں۔ کم آمدنی والے ووٹرز کی تعداد میں اضافہ اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت، ٹرمپ کے انتخابی مستقبل کے لیے اہم ہوگی۔

کیا ٹرمپ 2016 کی فتح کو دوبارہ حاصل کر سکیں گے؟
Shares: