زندگی بہت مختصر ہے اور سب کو اپنے اپنے حصے کی ملی ہے۔ کوئی انسان کسی دوسرے کی زندگی نہیں کی سکتا نہ کسی کی قسمت میں لکھے غموں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے نہ کسی کو ملی خوشیوں کو جی سکتا ہے۔ کوئی انسان کسی کے سکھ اپنی زندگی میں شامل نہیں کر سکتا اور نہ کسی کے دکھ بانٹ سکتا ہے۔ جو جس کا ہے وہ اسی کا ہے پھر پتہ نہیں کیوں کچھ لوگ اپنے حصے کی زندگی جینے کی بجائے دوسروں کی زندگی میں ذیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
الحمدللہ! مجھے میرے پیارے رب نے بہت سے ممالک دیکھنے کا موقع نصیب کیا اور تقریباً پیارے وطن کے تمام شمالی علاقہ جات بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ بے شک یہ میرے رب کا فضل ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں ہر طرف ایک گہما گہمی ہے وہاں ہر طرح کے رابطوں کا ذریعہ بھی یہی میڈیم ہے۔ آج سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ ایک کلک کے ساتھ آپ اپنی زندگی کے یادگار لمحات کو ہمیشہ کے لیے اپنی یادوں میں قید کر سکتے ہیں ان کو اپنے پیاروں کے ساتھ شئیر بھی کر سکتے ہیں۔ میں سوشل میڈیا پر بہت ذیادہ ایکٹیو بھی نہیں ہوں لیکن ابھی چند دن ہوئے میں نے چند تصاویر پوسٹ کیں اور میں حیران رہ گئی کہ
لوگ کیسے دوسروں کو دین سکھاتے ہیں۔
فتوے جاری کرتے ہیں۔
تو چلیں کچھ باتیں کرتے ہیں!
ان لوگوں سے جو مجھ سے محبت کرتے ہیں۔
ان لوگوں سے جو صرف محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
ان لوگوں سے جو میری اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔
ان لوگوں سے جو مجھے دین سکھانا چاہتے ہیں۔
ان لوگوں سے بھی جو مجھے غلط اور صحیح کا درس دینا چاہتے ہیں۔
ان لوگوں سے جو میری فرینڈ لسٹ میں ہیں لیکن فرینڈ نہیں۔
ان لوگوں سے جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان لوگوں سے بھی جو۔۔۔۔۔۔

اللّٰہ رب العزت قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ میں نے تقویٰ اور فجور انسان کے دل میں ڈال دیا ہے اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اسے کیسے استعمال کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں کوئی انسان امریکہ جائے، انگلینڈ جائے، دبئی جائے یا دنیا کے کسی کونے میں جائے اس پر تصویر بنانے اور سیلفی لینے میں کوئی فتویٰ جاری نہیں ہوتا لیکن حرم جو سب سے قیمتی، پیاری، پاک جگہ ہے جہاں کا ایک ایک لمحہ محفوظ کرنا ہر مسلمان کی اولین خواہش ہو سکتا ہے وہاں پر تصویر لینے میں فوراً فتویٰ جاری۔۔۔۔۔میرا سوال اہل علم و دانش سے ہے تصویر بنا کر سوشل میڈیا پر لگانا غلط ہے یا حرم میں تصویر بنا کر لگانا غلط۔۔۔۔؟ کیونکہ جہاں تک میری ناقص عقل ہے تو غلط تو ہر جگہ غلط ہی ہوتا ہے۔

میری عبادت، میرا اللّٰہ سے تعلق، میں اس کی خود ذمہ دار ہوں عام عوام کو میرے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اگر میں حرم سے ہر روز ایک سیلفی لے کر پوسٹ کر رہی ہوں تو بھی میری مرضی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آئی لوگوں کے اعتراضات کی، کوئی صاحب علم و دانش مجھے سمجھا دے کہ گلے میں دوپٹہ ڈال کر یا کبھی بغیر دوپٹے کے بال کھول کر دنیا کے کسی بھی کونے سے کوئی اپنی تصویر بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالے تو لوگ ماشاءاللہ کی لائن لگا دیتے ہیں لیکن پردے اور خدود اللّٰہ کا خیال رکھتے ہوئے کوئی اپنی تصویر لگا دے تو اس کا جینا مشکل کر دیتے ہیں لوگ۔
لوگ بغیر جانے دوسروں کو کیوں جج کرتے ہیں؟
کسی کے لباس سے کوئی کیسے کسی کا تعلق باللہ جانچ سکتا ہے؟
کیا اللہ اور بندے کے درمیان کی محبت ماپنے کا کوئی پیمانہ انسانوں کے پاس ہے؟

اسی لیے ۔۔۔۔اسی لیے۔۔۔۔اسی تنگ نظری کی وجہ سے ہماری نئی نسل دین سے دور ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ اگر ہم پردہ کریں گے تو زندگی کے دروازے ہم پر تنگ ہو جائیں گے۔ میں ان کو بتانا چاہتی ہوں دین اسلام میں بہت وسعت ہے بس خدود اللّٰہ کا خیال رکھتے ہوئے اپنی زندگی اللہ کے احکامات کے مطابق جئیں اور دوسروں کو جینے دیں۔ اگر کسی کی عبادت قبول نہیں ہو رہی تو پلیز آپ لوگ ٹینشن نہ لیں۔۔۔۔۔اگر اچھا نہیں بول سکتے تو برا بھی نہ بولیں۔۔۔۔۔اتنے تو ہم سب مسلمان ہیں نا کہ حطبہ حجہ الوداع میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
"لوگو! تمھارے خون، تمھارے مال، تمھاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی حرام ہیں جیسے کہ تم پر آج کا دن اور اس شہر کی حرمت، دیکھو عنقریب تمھیں اللّٰہ کے سامنے حاضر ہونا ہے وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔”

غور سے پڑھیے گا تمھارے اعمال کے بارے میں سوال ۔۔۔۔۔۔میرے نہیں ۔۔۔۔۔ کسی اور کے اعمال کے بارے میں نہیں بلکہ انسان کے اپنے اعمال کے بارے میں اللہ نے پوچھنا ہے۔
"مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔” یہاں تو زبان اور ہاتھ رکتے ہی نہیں۔ جب جس کا دل چاہتا ہے ہاتھ کی انگلیوں سے بٹن دبایا اور تنقید اپنا حق سمجھ لیا۔ اگر تنقید برائے اصلاح ہو تو وہ ان باکس میں کرنی چاہیے کمینٹ باکس میں اصلاح نہیں بلکہ بے عزتی ہوتی ہے۔ صحن حرم میں لی گئی ایک تصویر پر مجھ سے دوستی کے دعوے داروں کا کمینٹ آتا ہے کہ حرم میں جوتا پہنا ہے۔ مجھے بتایا جاتا ہے کہ جوتا اتارتی تو زیادہ عاجزی نظر آتی۔ پھر ایک کمینٹ آتا ہے کہ یہی جوتا واش روم میں لے کر گئیں اور یہی صحن حرم میں، مجھے کوئی ان سے پوچھ کر یہ بتائے جب میں حرم میں واش روم گئی تھی تو یہ میرے ساتھ تھے انہوں نے دیکھا تھا کہ میں نے یہی جوتا پہنا ہے؟ یہاں بھی کوئی سعودی گورنمنٹ کا فتویٰ ہے تو ضرور کوئی مجھے بتائے ورنہ میں نے تو حرم میں ہر سوئیپر کو، ہر پولیس والے کو، ہر ملازم کو ہر ایک کو جوتوں نہیں ۔۔۔۔۔ بلکہ مٹی لگے ہوئے بھاری بھرکم بوٹوں میں دیکھا ہے۔ خدارا دین کو تنگ نہ بنائیں۔
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دین میں آسانی پیدا کرو مشکل میں نہ ڈالو، خوشخبری دو اور متنفر نہ کرو۔”
دین کے ٹھیکے دار بننے کی بجائے اپنے اپنے اعمال کی طرف توجہ دیں۔ دور نبوت میں سیدنا اسامہ رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے ایک سریہ کے دوران ایسے شخص کو پایا جس نے تلوار دیکھ کر فوراً لا الہ الا اللہ پڑھ لیا مجھے لگا اس نے تلوار اور موت کے ڈر سے کلمہ پڑھا ہے جب یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا: "اسامہ! کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟ تمھیں کیسے پتہ کہ اس نے سچ میں کلمہ پڑھا یا موت کے ڈر سے۔” پھر رسول اللّٰہ بار بار یہ بات دہراتے گئے اور میں نے سوچا کاش میں نے آج اسلام قبول کیا ہوتا اور میرے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے۔(حوالہ صحیح مسلم:7)
کسی کا اللہ سے کیا تعلق ہے؟
وہ حرم میں تصویر بنائے یا ننگے پاؤں چلے۔۔۔۔وہ فرمان نبوی ہے نا کہ "اللہ بندے کی قربانی کا گوشت یا خون نہیں بلکہ اس کے دل کا تقویٰ دیکھتا ہے۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق:”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔”
اور جہاں تک میری ناقص معلومات ہیں تو ابھی تک سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی کہ دلوں اور نیتوں کو جانچنے والا کوئی آلہ بنا لیا ہو۔ دوسروں کی نیتوں پر نہیں اپنی نیتوں پر غور کریں۔ خدارا دین میں آسانیاں پیدا کریں جیں اور جینے دیں۔ اللہ پاک ہم سب کی مدد فرمائے آمین!

Shares: