کیا واقعی ہم ایک قوم ہیں ؟ تحریر : ریحانہ جدون

0
66
rehana jadoon ریحانہ جدون

یہ ایک سوال جس کے بارے میں کچھ کہنے کی جسارت کر رہی ہوں کیونکہ موجودہ دور میں زیادہ تو لوگوں کے منفی رویے ہیں اور اکثر لوگ منفی سوچ کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں افسوس اس معاشرے میں بگاڑ اتنا پیدا ہوگیا ہے کہ اس میں رہنے کے لئے اپنے ضمیر کو مارنا پڑتا ہے یہاں انسانی جان کی کوئی قدر وقیمت نہیں, انسانی خون اتنا سستا ہوچکا ہے کہ سڑک پر کوئی انسان ایڑیاں رگڑ کر مر رہا ہوتو اسکی ویڈیو بنانے کے لئے لوگ رکیں گے ضرور مگر اس کی مدد نہیں کریں گے
حقیقت میں ہم ایک قوم ہے ہی نہیں لوگوں کا وہ ہجوم ہیں جو اپنے اپنے مفاد کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے

یہ کہانی کچھ پرانی نہیں ہے جب پاکستان میں کارونا کی پہلی لہر آئی تو ہر طرف خوف تھا عالم یہ تھا کہ میں خود بھی بہت ڈری ہوئی تھی. گیٹ کو باہر سے تالا لگایا ہوا تھا کہ نہ کوئی جائے نہ کوئی آئے پر شوہر نے کام پر جانا تو تھا ہی
اس لئے روز بحث ہوتی اور مجبوراً ہار مان کر گیٹ کھول دیتی تھی ایک دن ایسا ہوا کہ بیٹے کو کسی کام سے اسٹور تک جانا پڑا تو واپس تھوڑا دیر سے آیا میں پریشان ہوگئی جب واپس آیا تو اس نے بتایا ساتھ گلی میں ایک گھر کے سامنے کوئی بزرگ پڑے ہوئے تھے تو انکل نے ان کو اٹھا کے سامنے کچرے والے پلاٹ میں پھینک دیا ہے پھینک دیا لفظ پر مجھے حیرت ہوئی اور تجسس ہوا کہ وہ بزرگ کون ہیں جاکے دیکھنا چاہیے

میں جب گیٹ سے نکلی تو سامنے گھروں کی عورتیں دروازوں میں کھڑی اسی بزرگ کی طرف دیکھ رہی تھیں, مجھے وہاں جاتے دیکھ کر بولیں باجی کیا کر رہی ہو وہاں نہ جاؤ لگتا ہے یہ کارونا کا مریض ہے اسی لئے کوئی اسے یہاں پھینک گیا ہے… میں نے کہا اگر کارونا بھی ہے اس کو مگر ہے تو ایک انسان ہی ناں مرنا تو ایک نہ ایک دن سب کو ہے مگر انسانیت نہیں مرنی چائیے میں نے وضاحت دی مگر وہ عورتیں اپنا اپنا فلسفہ سنا کے مجھے روکنے کی کوشش کرتی رہیں میں نے ان کی باتیں ان سنی کرکے اس بزرگ تک پہنچی تو دیکھا وہ لگ بھگ 80 سال کے تھے اور بیماری کی وجہ سے اٹھنے کی ہمت کھو چکے تھے میں نے ان کو ہاتھ سے جیسے پکڑا تو اندازہ ہوگیا کہ ان کو سخت بخار ہو رہا ہے . میرے اٹھانے سے وہ اٹھ نہ پائے اتنے میں میرا بیٹا جو 14 سال کا ہے وہ آگیا میں نے اسے کہا کہ میری مدد کرو اس طرح ایک طرف سے اس نے اور ایک طرف سے میں نے اس بزرگ کو کندھا دیا اور بمشکل گھر تک لے آئی اور یہ منظر وہاں کھڑے مرد حضرات بھی دیکھ رہے تھے ( مگر بےحسی ایسی کہ کوئی مدد کو نہ آیا)

گھر پہنچا کہ میں اس بزرگ کو صحن میں ہی بستر پر لیٹا دیا اور جلدی سے قہوہ بنا کہ ان کو چمچ سے پلایا ان کے میلے کپڑے پر ان کے چہرے سے وہ کسی اچھے گھر کے لگ رہے تھے جب قہوہ پی چکے تو ان کو پیناڈول ٹیبلٹ دی مگر وہ بخار کی ٹیبلٹ لینے سے انکاری تھے ہمارے اوپر والے پورشن میں ایک کرائے دار فیملی رہتی تھی ان کی ایک عورت چھت سے دیکھ رہی تھی کہنے لگی باجی یہ بخار کی گولی نہیں لے رہے کیا پتا کوئی جاسوس نہ ہو اس کو باہر جا کے چھوڑ کے آؤ میں نے کہا کہ بابا جی کی ایسی حالت نہیں کہ ان کو سڑک پر چھوڑا جائے میں یہ کہتے ہوئے اصرار کرنے لگی بابا جی یہ دیکھیں یہ کوئی اور ٹیبلٹ نہیں ہے یہ پیناڈول ہے اس سے آپ کا بخار کم ہوگا میرے اصرار پر انھوں نے میرے ہاتھ سے گولی لے کر منہ میں ڈالی مگر کچھ ہی دیر میں نکال لی, تب مجھے اپنے والد صاحب کا خیال آیا کہ وہ بھی ٹیبلٹ کے چار حصے کرکے تب لیتے ہیں میں نے ٹیبلٹ کو چار حصوں میں کرکے بابا جی کو دیا جو انھوں نے آسانی سے کھا لی
اس وقت ان کی حالت ایسی نہیں تھی کہ میں ان سے ان کے متعلق کوئی سوال کرتی اس لئے ان کو آرام کرنے دیا ٹیبلٹ لینے کے بعد وہ سو گئے اور ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد انھوں نے آواز دی نسرین کہاں ہو میں پاس گئی ماتھے پہ ہاتھ رکھا اب ان کا بخار اتر چکا تھا میں نے ان سے پوچھا آپکا نام کیا ہے

تو بولے میرا نام ریاض ہے نسرین کہاں ہے اور ساتھ ہی نسرین کو آوازیں دینے لگے میں نے ان کی جیب کی تلاشی لی کہ شاید کوئی شناخت ملے مگر ایک کاغذ تک ان کی جیب میں سے نہ نکلا تو میری پریشانی بڑھ گئی. اس بزرگ کی باتوں سے اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کو کچھ بھی یاد نہیں تھوڑی دیر بعد ان کو کھانا کھلایا ان کی حالت کافی سنبھل چکی تھی مگر میں سوچوں میں گم کہ اب کیا کروں پولیس کو بتاؤں یا نہ بتاؤں میں نے ان بزرگ کی موبائل سے تصویر لے کر پہلے ہی سوشل میڈیا واٹس ایپ پر شئیر کردی تھی رات ہونے والی تھی اور میرے شوہر کے آنے کا وقت قریب تھا سوچا جب وہ آجائیں تو پولیس کو بتائیں گے تقریباً شام 8:30 پہ مجھے ایک انجان نمبر سے کال آئی میں نے اٹینڈ کی تو دوسری طرف سے کوئی لڑکا بولا آپ نے سوشل میڈیا پر جو تصویر شئیر کی وہ بزرگ آپ کے گھر میں ہیں اس وقت ؟میں نے کہا جی ہاں میرے گھر پر ہیں تو اس نے بتایا کہ وہ ہمارے ایک جاننے والے ہیں انکے رشتہ دار ہیں اور صبح سے ان کو ڈھونڈ رہے ہیں

میں نے پوچھا کہ یہ کہاں کے ہیں تو اس نے بتایا کہ چکوال سے ہیں پر رہتے قاسم مارکیٹ کے پاس ہیں میں نے ان کو گھر کا ایڈریس بتایا اور ایک گھنٹے کے اندر ہی ان کی فیملی میرے گھر آگئی ساتھ میں ایک عورت بھی تھی میں نے بتایا کہ بابا جی تو کچھ بتا نہیں رہے بس کسی نسرین کو آوازیں دے رہے ہیں تو وہ عورت بولی نسرین میرا نام ہے اور یہ میرے والد ہیں ان کی یاد داشت کھو گئی ہے اسی لئے ان کو میں اپنے پاس لے آئی تھی کہ ان کا علاج ہو سکے اور صبح نماز کے وقت گھر سے بنا بتائے نکل گئے تھے ہم تب سے ان کو ڈھونڈ رہے ہیں ،انھوں نے میرا بہت شکریہ ادا کیا اور نسرین نے بہت دعائیں دیں اور بابا جی بیٹی کو پہچان کے اس کے ساتھ چلے گئے دوسرے دن وہی عورتیں میرے گھر آئیں کہ باجی آپ نے بہت بڑی نیکی کی ہے اس کا اجر آپ کو بہت ملے گا, ان کی باتیں سن کر میرے دماغ میں ان کی کل کی باتیں گونجنے لگیں کہ باجی اس کے پاس نہ جانا یہ کرونا کا مریض لگ رہا ہے وغیرہ وغیرہ

ان میں سے ایک نے کہا آ پ کو ڈر نہیں لگا کیونکہ آپ تو گیٹ کو باہر سے بھی تالا لگا کر رکھتی ہیں, میں نے کہا ہاں مجھے ڈر لگا تھا ان بزرگ کو دیکھ کر کہ اگر اس بزرگ کی جگہ میرے اپنے والد ہوتے اور وہ اس حالت میں ہوتے تو ان کا ایسے کوئی تماشہ دیکھتا…
میرے اس جواب پر وہ چپ ہوگئیں.

Leave a reply