دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت بھارت کو مانا جاتا ہے اور خود کو چوھدری ثابت کرنے کیلئے ہر جگہ پنگے لیتا ہے مگر الٹا ذلیل ہو کر اپنی معیشت تباہ کروا رہا ہے،بھارت کے 6 زمینی اور 2 دو سمندری حدود پر مشتمل ہمسایہ ممالک ہیں،بنگلہ دیش 4096 کلومیٹر ،چائنہ 3488 کلومیٹر ،پاکستان 3323 کلومیٹر،نیپال 1751 کلومیٹر،میانمار 1643 اور بھوٹان کی 699 کلومیٹر سرحد بھارت کیساتھ ملتی ہے جبکہ سری لنکا اور بھوٹان کی زمینی سرحد بھارت کیساتھ نہیں بلکہ ان کی سمندری سرحد اس سے ملتی ہے

قابل ذکر بات ہے کہ بھارت کی اپنے تمام ہمسایہ ممالک میں سے کسی ایک کیساتھ بھی اچھے تعلقات نہیں ہیں بلکہ ان کیساتھ کئی بار جنگیں و جھڑپیں ہو چکی ہیں،چائنہ بھارت تنازعات کا آغاز 1950 میں ہوا اور بھارت بالآخر تبت پر قبضہ کروا بیٹھا،1959 میں بھارت نے چائنہ کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کو باوجود چائنہ کے منع کرنے کے، پناہ دی جس کی وجہ سے حالات کشیدہ ہوتے گئے اور بالآخر 1962 میں بھارت چائنہ جنگ ہوئی، 1967 میں پھر سے ناتھولا اور چولا جھڑپیں ہوئیں اور 2017 میں داکلام اور اس کے بعد وادی گلوان میں 2020 کو پھر جھڑپیں ہوئیں جس میں بھارت کو سخت نقصان پہنچا ، تاحال چائنہ اور بھارت کے حالات سخت کشیدہ ہیں

بھارت کی جانب سے میانمار کے اندر مسلسل اندرونی مداخلت کے باعث 2015 میں میانمار کے ماؤ نواز باغیوں نے بھارت پر بہت بڑا حملہ کیا جس میں بھارت کے 18 فوجی مارے گئے تھے،سری لنکا میں بھارت نے 1980 میں اندرونی مداخلت کرکے علیحدگی پسند تنظیموں کو سپورٹ کرنا شروع کیا اور خود ہی اندرونی خانہ جنگی کو کنٹرول کرنے کیلئے 1987 میں اپنی فوج سری لنکا میں بیجھی تاہم اپنے 1500 فوجی مروا کر 1990 میں فوج واپس بلا لی جس کے باعث سری لنکن گروپ ایل ٹی ٹی ای نے 1991 میں بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو قتل کیا جسے مالدیپ کے باغیوں کی بھی حمایت حاصل تھی،3 نومبر 1988 کو مالدیپ میں انڈین فوج نے تامل باغیوں کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا جس کی وجہ سے آج دن تک تامل باغی انڈین علاقوں پر حملے کرتے رہتے ہیں

بھوٹان میں 2017 کو،ڈوکلام میں بھوٹان اور چائنہ کے متنازعہ سنگم پربھارت نے اس میں شامل ہوکر اپنی فوج بیجھی اور 73 دن تک خود اور بھوٹان کو چائنہ سے مار پڑوا کر بالآخر فوجوں کی واپسی کروائی جس کے نتیجے میں بھوٹان نے چائنہ سے راہ رسم بڑھایا تو آجکل بھوٹان اور بھارت کے تعلقات کچھ خراب ہو چکے ہیں

سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں بھارت نے 1971 میں پاکستان کے خلاف جنگ لڑی اور الگ ملک بنگلہ دیش بنوایا اور اس کا کنٹرول عملاً اپنے پاس رکھا تاہم 2001 میں اگرتلہ اور راجشاہی کے علاقے میں بنگلہ دیش اور بھارتی فوج کے مابین شدید خونریزی ہوئی جس کے باعث دونوں کے حالات خراب ہوتے گئے اور بالآخر اگست 2024 میں حسینہ واجد کے تختہ الٹنے کے بعد بھارت نے حسینہ واجد کو پناہ دی جس کے بعد پھر حالیہ چندہ ماہ قبل بنگلہ دیش و بھارت کے مابین سخت جھڑپیں ہوئیں اور اب بھی وقفے وقفے سے جاری رہتی ہیں جو کسی بھی وقت بڑی جنگ میں بدل سکتی ہیں

شروع دن سے ہی نیپال سے بھی بھارت کے تعلقات اچھے نہیں رہے ،مسلسل اندرونی مداخلت اور کالا پانی، لیپولیخ اور لمپادھورا تنازعات سے پریشان نیپال نے جون 2020 میں سیتا مڑھی کے علاقے میں ایک انڈین کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جس کے باعث دونوں ممالک کے حالات کشیدہ ہوئے تو نیپال نے اپنا نیا نقشہ جاری کیا جس میں کالا پانی،لیپولیخ اور لمپادھورا کو نیپال کا حصہ قرار دیا گیا اس پر بھارت نے سخت احتجاج کیا تاہم نیپال نا مانا اور پوری دنیا میں بھارت کی جگ ہنسائی ہوئی

بھارت کے سب سے زیادہ خراب تعلقات پاکستان کیساتھ ہیں کہ جس نے اپنے وجود کے محض 80 دن بعد 1947 میں ہی مقبوضہ کشمیر کا 13297 مربع کلومیٹر کا علاقہ چھین کر آزاد ریاست جموں و کشمیر قائم کی اس کے بعد 965,1971,1999 میں پاک بھارت جنگیں ہوئیں اور اب گزشتہ چند ماہ قبل مئی میں جنگ ہوئی جس میں بھارت نے منہ کی کھائی اور پوری دنیا کے سامنے ذلیل ہوا،8 دہائیاں گزرنے کے باوجود بھارت آزاد کمشیر کو واپس لینے کے دعوے تو کرتا رہا مگر ہر بار منہ کی کھاتا رہا ہے،اور اپنے اسی روئیے کے باعث بھارت دنیا بھر اور خاص طور پر اپنی ہمسائیگی میں مکمل تنہاء ہو چکا ہے اور اس کی معیشت بڑی تیزی سے تباہ ہو رہی ہے،5 اگست 2019 کو بھارت نے نہتے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی آزادی پر شب و خون مارتے ہوئے خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے آرٹیکل 370 اے و 35 اے ختم کیا مگر الحمدللہ حالیہ پاک بھارت جنگ نے امید کی ایک نئی کرن دکھائی کہ اب ایک بار پھر سے مقبوضہ کمشیر کا علاقہ بھارت کے ہاتھوں نکل کر آزاد کشمیر کا حصہ بنے گا اور دنیا بھارت کی تباہی کا تماشہ ایک بار پھر سے دیکھے گی
ان شاءاللہ

Shares: