سعید آسی اردو ادب کاوہ معتبر نام ہے، جو اپنی متنوع تحریری صلاحیتوں کی بنا پر ادب، صحافت اور تحقیق میں ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔ ان کا سفرنامہ "کس کی لگن میں پھرتے ہو” نہ صرف ایک کتاب ہے بلکہ ایک ایسا تخلیقی آئینہ ہے جو قارئین کو مالدیپ، برونائی، اور انڈونیشیا جیسے خطوں کی تہذیب، ثقافت، اور تاریخ کے حسین رنگ دکھاتا ہے۔ یہ سفرنامہ ایک ادیب کی خالص جمالیاتی حس اور محقق کی باریک بینی کا حسین امتزاج ہے، جس نے قارئین کو ان ممالک کے دلکش مناظر اور منفرد پہلوؤں سے روشناس کرایا۔کتاب کا عنوان "کس کی لگن میں پھرتے ہو” ایک شعری کیفیت اور فلسفیانہ گہرائی کا حامل ہے۔ یہ نہ صرف سفر کے ظاہری پہلو کو اجاگر کرتا ہے بلکہ اس کے باطنی معنی کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ یہ نام قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ شاید یہ سفر صرف مقامات کے بیچ کا نہیں بلکہ ایک روحانی، فکری، اور تہذیبی جستجو بھی ہے۔سعید آسی صاحب کی نثر کا کمال یہ ہے کہ وہ سادہ مگر موثر الفاظ میں اپنی بات کہنے کا ہنر جانتے تھے۔ ان کا یہ سفرنامہ بھی اس خوبی کا آئینہ دار ہے۔ ان کی تحریر کا بہاؤ اور مناظر کی جزئیات نگاری قارئین کو ان کے ساتھ ہر لمحہ محسوس کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ نہ صرف مناظر کی تصویر کشی کرتے ہیں بلکہ مقامی افراد کے رہن سہن، ان کے خیالات اور اقدار کو بھی نہایت گہرائی سے پیش کرتے ہیں۔

سعید آسی سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے ہمراہ 1990ء میں مالدیب گئے۔ حکومت سنبھالنے کے بعد نواز شریف کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ تھا۔ سفرنامے کا پہلا باب ’’کالا پانی‘‘ پر مشتمل ہے۔ جس میں سعید آسی نے کالا پانی کی سزا پر دلچسپ معلومات فراہم کی ہیں۔
سعید آسی مالدیپ کے نیلگوں پانیوں، شفاف ساحلوں اور قدرتی حسن کی شاندار تصویر کشی کرتے ہیں۔ وہ مقامی باشندوں کی سادگی، مہمان نوازی، اور مالدیپ کے منفرد ثقافتی ورثے کو بڑی محبت اور احترام سے بیان کرتے ہیں۔ ان کے مشاہدات نہ صرف سیاحتی مقامات تک محدود تھے بلکہ وہ ان جزائر کی تہذیب اور اس کی روحانی گہرائی میں بھی جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
برونائی کا سفر سعید آسی نے مارچ 1996ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا۔ سعید آسی نے اپنی کتاب میں ایسے واقعات کو بھی تحریر کیا ہے جو عام مسافروں کو جہاز کے سفر میں پیش آتے ہیں۔برونائی کی شاندار مسجدیں، سلطنت کا انتظام، اور لوگوں کی روحانی وابستگی سعید آسی کی نگاہ سے پوشیدہ نہ رہی۔ وہ برونائی کے عوام کی خوشحالی کو نہ صرف ان کے معاشی نظام بلکہ ان کے روحانی اصولوں سے جوڑتے ہیں۔ وہ اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ کس طرح یہ چھوٹا سا ملک اپنی دولت کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافتی اور مذہبی شناخت کو محفوظ رکھے ہوئے ہے۔
انڈونیشیا کا سفر اس کتاب کے سفرنامے کا آخری حد ہے۔ یہ سفر محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور نصرت بھٹو کے ساتھ طے ہوا۔ اس دورے میں صدرسہارتو سے بھی ملاقات ہوئی۔ اس عظیم مسلمان لیڈر سے ملاقات کا تفصیلی اور سیر حاصل ذکر بھی سفرنامے بھی موجود ہے۔پاکستان میں کئی لوگوں نے سفرنامے لکھے ہیں لیکن ’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ ایک منفرد اور دلچسپ سفرنامہ ہے۔ انڈونیشیا کی رنگا رنگی اور تہذیبی تنوع اس سفرنامے کا ایک اہم حصہ ہے۔ سعید آسی نے انڈونیشیا کے مختلف جزائر کی تاریخ، مذہبی ہم آہنگی، اور ان کی ثقافتی رنگینی کو اپنی نثر میں بڑی مہارت سے پیش کیا۔ وہ انڈونیشیا کے اسلامی ورثے کو خاص طور پر اجاگر کرتے ہیں اور اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہیں۔یہ کتاب ایک عام سیاحتی سفرنامے سے بڑھ کر ایک فکری اور تہذیبی جستجو کی داستان معلوم ہوتی ہے۔ سعید آسی کا مشاہدہ محض خارجی دنیا تک محدود نہیں بلکہ وہ ان ممالک کے لوگوں کے جذبات، ان کی امنگوں، اور ان کی زندگی کی قدروں کو بھی گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔”کس کی لگن میں پھرتے ہو” صرف ایک سفرنامہ نہیں بلکہ ایک دعوتِ فکر ہے۔ یہ کتاب قارئین کو سفر کے ظاہری لطف کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف خطوں کی تہذیبی گہرائی اور روحانی تعلق کو سمجھنے کی ترغیب دیتی ہے۔ سعید آسی اپنے قارئین کو بتاتے ہیں کہ سفر صرف جگہوں کا بدلنا نہیں بلکہ اپنے اندر کی دنیا کو دریافت کرنے کا ایک وسیلہ بھی ہے۔

سعید آسی کا یہ سفرنامہ اردو ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔ ان کی یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ایک خزانہ ہے جو دنیا کو ایک سیاح، ایک محقق، اور ایک روحانی مسافر کی نظر سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کتاب نہ صرف مالدیپ، برونائی، اور انڈونیشیا جیسے حسین ممالک کی عکاسی کرتی ہے بلکہ قاری کو ایک ادیب کی دنیا کے حسین سفر پر بھی لے جاتی ہے۔ سعید آسی کی نثر، مشاہدہ، اور فلسفیانہ سوچ ان کے قارئین کے لیے ہمیشہ ایک رہنمائی کا ذریعہ رہے گی۔آسی صاحب کی روزنامہ نوائے وقت کے ساتھ تقریبا پینتالیس برس کی رفاقت ہے۔ اُن کی کتاب ” کس کی لگن میں پھرتے ہو” بہت متاثر کن ہے۔اس کتاب کے منفرداسلوب نے انہیں اور زیادہ محبوب بنا دیا۔ وہ شعر و ادب سے بھی اتنی ہی محبت کرتے ہیں ، اُن کی اردو شاعری اور پنجابی شاعری کی دو کتابوں سمیت بارہ کتابیں منظر عام پر ہیں ۔ ایک بہت اہم دلچسپ اور منفرد بات یہ ہے کہ سعید آسی صاحب نے اپنی کسی کتاب کے لیے کسی کی رائے اوردیباچہ وغیرہ شامل نہیں کیا۔سعید آسی کے سفرنامے پر مشتمل یہ ایک ایسی کتاب ہے، جو ادب کی دنیا میں اپنی الگ ہی پہچان اور شناخت رکھتی ہے۔ قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل جناب علامہ عبدالستار صاحب نے اسے بڑے پیار و محبت کے ساتھ شائع کیا ہے۔اب یہ کتاب دوبارہ دستیاب ہے،آرڈر کرنے کیلئے ـ0515101-300-0092ــ پر رابطہ کیا جا سکتا ہے









