بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کسی ثالثی کو قبول نہیں کرتے۔

اکنامک ٹائمز ورلڈ لیڈرز فورم کی تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ایسا امریکی صدر نہیں دیکھا جس نے خارجہ پالیسی کو عوامی انداز میں چلایا ہو، بھارتی وزیرخارجہ نے آپریشن سندور کے موقع پر امریکا سے کال کیے جانے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ حقیقیت ہے اس وقت فون کالیں کی گئیں اور امریکا کی جانب سے کی گئیں، فون کالز دیگر ممالک کی جانب سے بھی کی گئیں، یہ کوئی سیکریٹ نہیں، امریکا کی جانب سے کی گئی ہر فون کال میرے ایکس اکاؤنٹ پر ہے۔

بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے ٹرمپ کے پاک بھارت ثالثی کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کسی تیسرے فریق کی ثالثی قبول نہیں کی جائے گی،ایک ٹی وی انٹرویو میں بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا بھارت کا واضح مؤقف ہے، 1970 کی دہائی سے لے کر آج تک، یعنی پچاس برس سے زائد عرصے سے بھارت کے اندر ایک قومی اتفاقِ رائے موجود ہے اور اس کو مینٹین کرنے کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑا ہم کریں گے۔

بنگلادیش نے پاکستانی حکام کے لیے ویزا کی شرط ختم کردی

بھارتی وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کسی تیسرے فریق کی ثالثی قبول نہیں کی جائے گی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا طرزِ حکمرانی اور خارجہ پالیسی اختیار کرنے کا انداز ماضی کے تمام صدور سے نمایاں طور پر مختلف ہے، روایتی طور پر امریکہ کی سفارت کاری ہمیشہ بند کمروں کے مذاکرات، محتاط بیانات اور طویل المدتی حکمتِ عملی کے ذریعے چلتی رہی، لیکن ٹرمپ نے اس روایت کو یکسر بدل ڈالا۔

9 مئی واقعات کے بعد پی ٹی آئی معاملات بہتر کرسکتی تھی،رانا ثنااللہ

بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی صدر نے خارجہ پالیسی کو عوامی سطح پر نہ صرف موضوعِ بحث بنایا بلکہ اسے اپنی سیاسی حکمتِ عملی کا اہم ہتھیار بھی بنایا، ٹرمپ اکثر سوشل میڈیاکے ذریعے عالمی رہنماؤں کو براہِ راست مخاطب کرتے، تجارتی معاہدوں پر کھلے عام تنقید کرتے اور کبھی کبھار سخت بیانات کے ذریعے عالمی سیاست میں ہلچل پیدا کر دیتے، ٹرمپ کا یہ رویہ بھارت سے تعلقات تک محدود نہیں رہا بلکہ چین، یورپ، مشرقِ وسطیٰ، شمالی کوریا اور حتیٰ کہ اپنے اتحادی نیٹو ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی اسی طرزِ عمل کا مظاہرہ ہوا، اس انداز نے امریکی پالیسی کو نہ صرف غیر متوقع بنایا بلکہ کئی مواقع پر عالمی سفارت کاری کو مشکل بھی کر دیا ہے۔

Shares: