شروع سے سکھایا جاتا ہے کہ بیٹیاں وہی اچھی ہوتی ہیں جو ریڈ کارپٹ بن جائیں کہ ہر رشتے کے قدموں تلے بچھ جائیں ۔۔۔۔ ماں کے سامنے، باپ کے سامنے، بھائی، شوہر، سسرال، معاشرہ—سب کے سامنے۔۔۔۔۔
لیکن پھر۔۔۔۔کہیں سے ایک لہر اُٹھتی ہے۔ پہلے سوال بنتی ہے۔۔۔۔۔۔پھر سوچ… پھر شعور… اور آخر میں ایک طوفان—فیمنزم کا طوفان۔
ہاں، اس میں بہت کچھ بکھر جاتا ہے۔کچھ اقدار، کچھ رشتے، کچھ سلیقے۔۔۔۔لیکن جو باقی رہ جاتا ہے۔۔۔۔
وہ صدیوں کی بند زنجیروں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے— خودی، اختیار، اور "نہیں” کہنے کا ہنر۔۔۔۔۔ پھر بہت ہی عام سی گھرانوں کی بیٹیاں بھی سمجھنے لگتی ہیں کہ” نہیں ” کہنا اتنا مشکل نہیں ہے۔۔۔۔ باؤنڈریز بنانا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔۔۔۔
بہت ذیادہ شعور نہیں تھا جب میری چھوٹی پھپھو کی ڈیتھ ہوئی لیکن اب سوچنے سے مطالعہ کرنے سے ان کی زندگی کے بارے میں جو باتیں شعور میں رہ گئیں تو یاد آتا ہے کہ وہ کمال کی فیمینسٹ خاتون تھیں۔۔۔ وہ پہلی خاتون جو اپنے حق کے لئے لڑتی تھیں ، یقیناً وہ ہمارے ٹیپیکل پرانی روایات والے خاندان کی پہلی بیٹی تھیں جنہوں نے ہمارے لاشعور میں فٹ کر دیا کہ عورت کو doormat نہیں ہونا۔۔۔۔ جو بھی ہو جائے ایک واضح سیدھی لکیر کھینچنا ضروری ہے۔۔۔۔
میری زندگی کی وہ پہلی فیمینسٹ ہیں جن کو اپنی زندگی میں فیمینزم کا پرچار کرتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔ ان کا نام نسیم تھا۔۔۔۔ اور وہ اپنے ڈیٹا پر پورے کانفیڈنٹ سے نسیم چغتائی لکھتی اور بولتی تھیں۔۔۔۔ یہ وہ دور تھا جب خواتین کا شادی کے بعد آئی ڈی کارڈ پر ذیادہ تر بی بی یا شوہر کا نام ساتھ لگا دیا جاتا۔۔۔۔ خیر بات ہو رہی تھی ” نہیں” کہنے کی۔۔۔۔
باؤنڈری بنانا آسان نہیں ہوتا، خاص طور پر ان لوگوں کے سامنے جنہیں آپ کی خاموشی، خدمت اور قربانیوں کی عادت پڑ چکی ہو۔۔۔۔۔ جو لوگ آپ سے صرف فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، وہ کبھی بھی آپ کی حقیقت، آپ کے جذبات، اور آپ کی قائم کردہ حد بندی کو اچھا نہیں جانیں گے،قرآن میں بھی بار بار ہمیں "عدل” اور "نفس کی حفاظت” کا سبق دیا گیا ہے۔ "وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ” (سورہ الاسراء: 29) — "اور نہ ہی اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا رکھو (کہ کچھ دو ہی نہ)، اور نہ ہی اسے بالکل کھول دو (کہ سب کچھ خرچ کر ڈالو)”۔ یہ آیت ہمیں توازن سکھاتی ہے—اپنے آپ کو ضائع کیے بغیر دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک۔۔۔۔
اگر آپ خوش قسمتی سے باؤنڈری بنا سکی ہیں، اور لوگ آپ سے دور ہو گئے ہیں—تو سمجھ لیجیے وہ کبھی آپ کے اپنے تھے ہی نہیں۔ جو رشتے باؤنڈریز کے احترام پر قائم ہوں، وہی دیرپا اور مخلص ہوتے ہیں۔ باقی سب محض استعمال کی خواہش ہوتی ہے، جس کا پردہ "محبت” اور "تعلق” کے الفاظ سے ڈھانپا گیا ہوتا ہے۔اس لیے اگر آپ کو باؤنڈریز بنانے کی قیمت چکانی پڑی ہے، تو یاد رکھیں آپ نے کچھ کھویا نہیں، بلکہ اپنے گرد موجود منافقت کا پردہ چاک کیا ہے۔ اور یہ پہچان، یہ شعور، یہ خود احترامی، کسی بھی قیمت سے زیادہ قیمتی ہے۔۔۔۔۔!!!