محرم جاں کوئی دیوار نہ در لگتا ہے
اپنا گھر اب تو کسی اور کا گھر لگتا ہے
آفاق احمد صدیقی
پیدائش:04 مئی 1928ء
فرخ آباد، وبرطانوی ہند
وفات:17 جون 2012ء
کراچی، پاکستان
مدفن:سخی حسن، کراچی
مادر علمی:جامعہ علی گڑھ
زبان:اردو، سندھی
اعزازات:
تمغائے حسن کارکردگی
آفاق صدیقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو اور سندھی زبان کے نامور شاعر، نقاد، مترجم اور پروفیسر تھے۔
حالات زندگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفاق صدیقی 04 مئی، 1928ء کو فرخ آباد، اترپردیش، برطانوی ہندستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام محمد آفاق احمد صدیقی تھا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ سکھر میں آباد ہوئے اور انہوں نے تدریس کے شعبے سے وابستگی اختیار کی۔
ادبی خدمات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفاق صدیقی کی مادری زبان اگرچہ اردو تھی لیکن انہیں فارسی، ہندی اور سندھی زبانوں پر بھی دسترس حاصل تھی۔ شاید اسی بنا پر انہیں تحقیق اور ترجمے سے بھی رغبت تھی اور ان کے قریبی دوستوں کے مطابق انہوں نے چالیس کے لگ بھگ تصانیف چھوڑی ہیں جن میں اٹھارہ تصانیف سندھی زبان میں ہیں۔ ان کے تحقیقی کام اور تراجم کو اردو اور سندھی ادب کے حوالے سے نہایت اہم تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست اور شیخ ایاز کی شاعری کو بھی اردو میں منتقل کیا۔ ان کی ان خدمات کی بنا پر انہیں سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیان ایک پل بھی قرار دیا جاتا تھا۔ 1951ء میں انہوں نے رسالہ کوہ کن نکالا۔ 1953ء میں سندھی ادبی سرکل قائم کیا۔
آفاق صدیقی نے مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس نے سکھر اور شہر کے نواح میں چودہ ایسے اسکول قائم کیے جن میں کم اور اوسط آمدنی والے خاندانوں کے بچوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔ تدریسی فرائض سے ریٹائر کیے جانے کے بعد وہ کراچی منتقل ہو گئے اور اردو سندھی ادبی فاؤنڈیشن کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ اس تنظیم کے قیام کا مقصد ایسے ادیبوں کی کتابیں شائع کرانا تھا جو اپنی کتابیں خود شائع کرانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔
آفاق صدیقی کی تصانیف میں پاکستان ہمارا ہے، کوثر و تسنیم، قلب سراپا، ریزہ جاں، تاثرات، عکس لطیف، شاعر حق نوا، پیام لطیف، اقوال سچل، بساط ادب، بابائے اردو وادی مہران میں، ادب جھروکے ، گلڈ کہانی، ادب گوشے، ریگزار کے موتی، ماروی کے دیس میں اور جدید سندھی ادب کے اردو تراجم شامل ہیں۔ ان کی خود نوشت سوانح عمری صبح کرنا شام کا کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔
تصانیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارمغان عقیدت
ادب زاویے (مضامین)
شاہ لطیف اور عصر حاضر (لطیفیات)
سندھی ادب کے اُردو تراجم (ترجمہ)
جدید سندھی ادب (تنقید)
ریگزار کے موتی (شمالی سندھ کے شعرا)
بابائے اُردو وادیٔ مہران میں
بوئے گل و نالۂ دل (شیخ ایاز کا اُردو کلام) (ترتیب)
ادب جھروکے (مضامین)
شخصیت ساز (مضامین)
احوال سچل()انتخاب کلام سچل سائیں
پیام لطیف (شاہ لطیف کا پیام و کلام)
شاعر حق نما (سچل سرمت کی شاعری اور شخصیت)
تاثرات (تنقیدی مضامین)
پاکستان ہمارا ہے (ملی نغمے)
بڑھائے جا قدم ابھی
صبح کرنا شام کرنا (خود نوشت سوانح عمری)
سُر لطیف(گیت)
کوثر و تسنیم (حمد،نعت و منقبت)
عکس ِلطیف (لطیفیات)
ریزہ جاں (شاعری)
قلب سراپا (شاعری)
محمد عثمان ڈیپلائی : شخصیت اور فن
اعزازات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومت پاکستان نے آفاق صدیقی کی خدمات کے صلے میں صدارتی اعزاز برائےحسن کارکردگی سے نوازا۔ اس کے علاوہ انہوں نے لطیف ایکسیلینس ایوارڈ بھی حاصل کیا۔
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا زمیں کیا آسماں کچھ بھی نہیں
ہم نہ ہوں تو یہ جہاں کچھ بھی نہیں
دیدہ و دل کی رفاقت کے بغیر
فصل گل ہو یا خزاں کچھ بھی نہیں
پتھروں میں ہم بھی پتھر ہو گئے
اب غم سود و زیاں کچھ بھی نہیں
کیا قیامت ہے کہ اپنے دیس میں
اعتبار جسم و جاں کچھ بھی نہیں
کیسے کیسے سر کشیدہ لوگ تھے
جن کا اب نام و نشاں کچھ بھی نہیں
ایک احساس محبت کے سوا
حاصل عمر رواں کچھ بھی نہیں
کوئی موضوع سخن ہی جب نہ ہو
صرف انداز بیاں کچھ بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محرم جاں کوئی دیوار نہ در لگتا ہے
اپنا گھر اب تو کسی اور کا گھر لگتا ہے
ہم بھی دیکھیں تو کہیں جنس وفا کی صورت
کوئی بتلائے وہ بازار کدھر لگتا ہے