ایسے لوگوں کا ظرف کیا ہوگا ،
جن کے گھر میں کوئی کتاب نہیں ۔
ان کو بینا بھی کہہ نہیں سکتے ،
جن کی آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ۔
ہر سال 23 اپریل کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں کتابوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔
ما سوائے برطانیہ اور امریکہ کے ، ان دو ممالک میں کتابوں کا عالمی دن 4 مارچ کو منایا جاتا ہے ۔
اس دن کو منانے کا مقصد معاشرے میں کتب بینی اور علم کو عام کرنا ہے اور پوری دنیا میں کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے ۔
عالمی یوم کتاب اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے تحت منایا جاتا ہے ، جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر عوام میں کتب بینی کا فروغ ، اشاعت کتب اور اس کے حقوق کے بارے میں شعور کو اجاگر کرنا ہے اس دن کو منانے کی ابتداء 1995 ء میں ہوئی ۔
کتاب اور علم دوست معاشروں میں یہ دن بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔
جو لوگ کتابیں پڑھتے ہیں اور انہیں عزت دیتے ہیں حقیقت میں وہی لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں ۔
کیونکہ کتاب ہی آپ کی وہ واحد دوست ہے جو کبھی بھی آپ کو تنہا نہیں ہونے دیتی ۔
اگر ہم فضولیات کی بجائے کتاب دوستی کو پرموٹ کریں تو ہم کبھی بھی زوال پزیر نہیں ہوں گے ۔ آج تک ہم نے جتنا علم حاصل کیا ہے وہ کتاب ہی کی بدولت ہے ، کیونکہ کتاب کی خوشبو واحد خوشبو ہے جو ہمارے دل و دماغ کو معطر کرتی ہے ۔
بیشک آج کمپیوٹر دور ہے لیکن اس کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں کتب شائع ہو رہی ہیں اور پڑھی جا رہی ہیں کیونکہ جو مزہ بک ریڈنگ میں ہے وہ آپ کو کہیں نہیں ملے گا ۔
آپ اگر اپنی دن بھر کی تھکاوٹ اور بوریت ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ اپنی بک شیلف میں سے ایک عدد کتاب اٹھائیں اور اس کا مطالعہ شروع کردیں ، یقین جانیئے کتاب آپ کو تھپک تھپک کر نیند کی ان خوبصورت وادیوں میں لے جائے گی جہاں نہ ہی بوریت رہے گی اور نہ ہی تھکاوٹ اور جب آپ اٹھیں گے تو ایک الگ طرح کی کیفیت اور طمانیت طاری ہو جاتی ہے کہ آپ سب کچھ بھول کر ایک نئی دنیا میں پرواز کر رہے ہوتے ہیں اور اس پرواز کو کوئی چاہ کر بھی نہیں روک سکتا اور یہ صرف کتاب ہی کی بدولت ہے ۔
آج تک ہم نے جتنا علم حاصل کیا ہے اس کا سہرا صرف کتاب کے سر جاتا ہے ۔ کتابوں سے محبت ہماری فطرت میں شامل ہونی چاہیئے ، کیونکہ کتاب سے محبت ہی ہمیں اچھے برے میں تمیز کرنا سکھاتی ہے اور ہمارے شعور کے وہ در وا کرتی ہے جس کا ہمیں وہم و گماں بھی نہیں ہوتا ۔
جس معاشرے میں کتاب کو پرموٹ نہیں کیا جاتا ان کے مقدر میں ذلت ورسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔
ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے دوست احباب اور جاننے والوں کو صرف کتاب ہی تحفہ دیا کریں تاکہ ہم بھی کتاب کی اہمیت سے آگاہ ہو سکیں کہ جو ایک کتاب کی اہمیت ہے وہ کسی اور چیز کی نہیں ۔
ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی کتابوں کی اہمیت کے بارے میں روشناس کرائیں اور انہیں بتائیں کہ کتاب آپ کی وہ واحد دوست ہے جو آپ کو کبھی بھی تنہا نہیں ہونے دے گی ۔ اگر آپ اپنی تنہائی کا کسی کو ساتھی بنانا چاہتے ہیں تو کتاب سے بڑھ کر آپ کا کوئی دوست نہیں ۔ کتاب کبھی بھی آپ کو تنہا نہیں ہونے دے گی ۔ کتاب ہماری وہ مخلص ساتھی اور دوست ہے جو ہماری ذہنی صلاحیتوں کو نکھارنے اور غور وفکر کرنے کے نئے در کھولتی ہے اور ہماری سوچ کو وسعت دیتی ہے ۔
موجودہ دور میں سوشل میڈیا نے کتاب کی اہمیت اور قدر کو دھندلا دیا ہے ، اس کے علاوہ شرح خواندگی کی کمی بھی کتاب سے دوری کی بڑی وجہ ہے ۔
ان مسائل کے حل کے لئے ہمیں مناسب وسائل کی فراہمی ممکن بنانا ہوگی ۔ گھروں میں والدین اور سکول و کالجز کی سطح پر اساتذہ کرام اس حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر سیمینارز منعقد کروا کر بچوں کو کتب بینی کی طرف راغب کرنا ہوگا ۔