کیا سرائیکی لوک قصے دنیا میں زندہ رہیں گے؟
تحریر:ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھرجلالوی
پہلی قسط: سرائیکی لوک قصے اور ان کی اہمیت
سرائیکی دھرتی فنون لطیفہ اور علم و دانش کا مرکز ہے۔ سرائیکی لوک قصے درحقیقت سرائیکی قصولیوں کی ہزاروں سال پرانی تہذیب کا حصہ ہیں، جو چولستان اور کوہ سلیمان کے خطوں میں محفوظ ہیں۔ قصہ گوئی انسانی تہذیب کا قدیم فن ہے، جو مختلف واقعات، تجربات، اور حقائق کو دلچسپ انداز میں پیش کرنے کا ذریعہ رہا ہے۔ قرآن پاک کی سورہ القصص اور دیگر مذہبی کتابوں میں موجود قصے انسانیت کی فلاح کا سبق دیتے ہیں۔ سرائیکی ماہرین کے مطابق، قصہ انسانی شعور اور ادبی ترقی کی بنیاد ہے، جس نے انسان کو نہ صرف جینے کا ہنر سکھایا بلکہ اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی پروان چڑھایا۔
سرائیکی دھرتی فنون لطیفہ سے لبریز علم و دانش کا خوبصورت ترین خطہ ہے۔سرائیکی لوک قصہ درحقیقت سرائیکی باشعور سرائیکی قصولیوں کی چھ ہزار سال پرانی ہاکڑہ و سندھ تہذیب وتمدن کا روحانی چولستان روہی تھل کے ریت کے ذروں اور دمان کوہ سلیمان کے پہاڑوں میں چھپے قیمتی خزانوں کی طرح ارتقائی اعتبار سے نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔گنتر گراس عالمی مفکر کا کہنا ہے "اگر دنیا میں کتابیں ختم ہوجائیں گیں تو قصولی زندہ رہیں گے”۔ قصہ عربی زبان کا لفظ ہے۔جس کے معنی کوئی نئی بات، واقعہ،حادثہ،داستان،ناول،کتھا،کہانی، افسانہ،سچ و جھوٹ کا ملاپ وغیرہ کے لیے جاتے ہیں۔عہد جدید میں عملی پریکٹیکل پرفارمنس ڈرامہ،تھیٹر، فلم میں کردار،پلاٹ، کینوس کا وجود، منظر نگاری،مکالمہ نگاری،دراصل قصہ،داستان،
افسانہ،ناول،کہانی،کتھا کےنئے انداز میں روپ ہیں۔کائنات کی تخلیق مادری زبانوں کے فن کمال قصہ گوئی میں محفوظ ہے۔
حیوان ناطق انسان نے اشرف المخلوقات کا شرف قوت گوئی کے پہلے فن قصہ گوئی سے حاصل کیا۔ قصہ ایک عظیم لغت ہے اور ایسی نایاب ڈکشنری جس میں لفظوں کا کمال حیرت انگیز جہاں ہوتا ہے۔قصے کی بدولت انسان نے زمین اور آسمان کے ستاروں کے علم کی معرفت حاصل کی ہے۔قصہ علم لدنی و روحانیت کی معراج ہے۔تمام علوم کی دولت قصے سے شروع قصے پر ختم ہوتی ہے۔قصہ روشنی کا وہ عصاء ہے جس نے گمشدہ خزانوں کو ڈھونڈ نکلا۔قصہ ہر مشکل کا حل ہے۔قصہ انسان کا عملی کامیاب استاد ہے۔ میں قصے کا مطلب حق سچ یعنی صبح صادق ہی لوں گا۔کیونکہ رب العزت جلال کی الہامی لاریب کتاب قرآن مجید کی ایک آیت کریمہ نہیں بلکہ پوری سورت کا خوبصورت نام سورہ القصص ہے۔جس میں قدیم سابقہ اقوام کے عروج و زوال کےقصے درج ہیں۔آسمانی مقدس کتابوں میں زبور، تورات،انجیل، صحیفے مبارکہ کے ساتھ دیگر معزز مذاہب کی روحانی کتب مقدسہ ویدک لٹریچر میں بھی قصے درج ہیں۔موضوع ومقصد سب کا ایک انسان اور فلاح انسانیت ہے۔
قصہ دراصل ایک من پسند اور آسان ترین عملی مثالی قابل فہم وشعور کا اعلی ترین نمونہ ہے۔نبی آخری زماں حضرت محمد مصطفٰی ﷺکی سیرت طیبہ میں بے شمار قیمتی سبق آموز حق سچ قصے موجود ہیں۔آپ ﷺ کے معجزات مبارکہ انسانوں کی بہترین اصلاح،تربیت اور رشدوہدایت کے لیے ہمیشہ موجود رہیں گے۔واقعہ معراج نے قصے کو بام عروج بخشا۔قصے کے فن اور اس کو ہمیش عزت و توقیر ملتی رہے گی۔کیونکہ قرآن مجید کی حفاظت خود اللہ پاک نے فرمائی ہے۔جس کی ایک سورہ القصص پارہ نمبر20 ،تلاوت قرآن مجید موجودہ ترتیب کے لحاظ سے مکی سورہ نمبر 28،کل آیات 88 ،رکوع9،جب کہ نزولی ترتیب وار سورہ 49 ہے۔
اب ہمیں یہ فکر ہرگز نہیں کرنی چاہیے کہ قصے کا وجود باقی رہے گا کہ نہیں۔ہر گزرتا لمحہ قصہ کہلاتا ہے۔قصہ گوئی کا خوبصورت آغاز "کن فیکون” کے حکم سے لامتناہی روحانی سفر فیض جاری و ساری ہے۔جو اللہ پاک کے حکم سے ہمیش چلتا رہےگا۔اللہ پاک نے ہر دور میں اپنے بندوں کی خیر سلامتی اور کامیاب کونسلنگ کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کو بھیجا۔اب سلسلہ نبوت حضرت محمد مصطفٰیﷺ تک ختم ہوگیا۔مگر آپ ﷺکی تعلیمات کا سلسلہ آپﷺ کےاہل بیت المقدس،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین،اولیاء اللہ کرام کے توسط سے تا قیامت خیر کا پیغام پہنچتا رہےگا۔حق سچ والا قصہ نسل انسانی میں پیڑھی در پیڑھی منتقل ہوتا آرہا ہے۔قصہ ہر نسل کی تربیت و کامیابی کی کنجی ہے۔
سرائیکی عالمی ادبی شخصیت ماہر سرائیکی سماجیات ڈاکٹر جاوید حسان چانڈیو کہتے ہیں "قصہ انسانی شعور کا بنیادی بیج ہے۔سرائیکی قصولیوں نے قصے کے ذریعے اپنی قوم کے حقیقی ادب کو سینوں میں محفوظ رکھا”۔قصوں کو مختلف دانشوروں نے اپنی عقل و دانش سے کسی نے انسانی عمری تقسیم سے،بچوں،لڑکپن،نوجوانوں،بوڑھوں کے قصوں میں بانٹا۔کچھ ادیبوں نے اپنی شعوری پختگی سے قصوں کو متھ،فیبل،لیجینڈ ،ہیروز،مشاہیر
،مذہبی،رومانس عشقیہ قصوں پر مشتمل اقسام گنوائیں ہیں۔
سرائیکی زبان و ادب کے نامور محقق و نقاد محمد حفیظ خان کے مطابق "قصہ انسانی قوت گوئی کی عظیم ترین گواہی ہے۔سرائیکی قصے سے قدیم و جدید ادیبوں نے رہنمائی حاصل کی ہے”۔سرائیکی دھرتی تصوف کے مہان کلاسیکل شاعر سئیں پروفیسر رفعت عباس کہتے ہیں”سرائیکی لوک قصے نے سرائیکی معصوم قوم کو ہر عہد میں جینے کا فن سکھایا ہے۔شاعری کے پر اسرار رازسمجھنے کے لیے میں نے سرائیکی قصوں کی بھاشا کو اپنی طاقت بنایا”۔سرائیکی فوک وزڈم کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر ریاض خان سنڈھر کےمطابق”سرائیکی قصہ سرائیکی قوم کے مستقبل کی روشن دلیل ہے”۔ سرائیکی فوک دانشور،شاعر،سابق ریڈیو اسٹیشن ڈائریکٹر ملتان و بہاولپور ڈاکٹر خالد اقبال کا کہنا ہے” سرائیکی لوک قصے سرائیکی الفاط کا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ان کی عظمت سے کسی کو انکار نہیں”۔سرائیکی قصہ سرائیکی قوم کا نالج ہاوس ہے۔
قصوں کی بدولت لاکھوں سالوں میں انسانوں نے اپنی سوچ،شکل،صلاحیتوں اور سماجی ساخت کو بدلا ہے۔مجھے قصے سے محبت نہیں بلکہ عشق ہے۔میں نے ہر مشکل کا حل سرائیکی قصے میں موجود روحانی شخصیت کی حکمت سے سیکھا ہے۔میرے روحانی مرشد کامل حقیقی شہنشاہ تجلیات و فیضان حضور حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری نے رب العزت جلال کے حکم سے میری روحانی راہنمائی فرمائی ہے۔قصے کے عمل نے مجھے سیدھے چلنا سیکھایا،اوزاروں کا استعمال کرنا سکھایا کیا،آگ کو اپنا ساتھی بنایا۔غاروں میں رہنے والے انسان کو باشعور قصے کی شعوری پختگی کے کلیدی تربیتی ورکشاپ نے جینے کا محفوظ ماحول فراہم کیا۔ترقی وخوشحالی کی نئی علم و حکمت کی راہیں عطاء کیں۔خوبصورت پیچیدہ زبانوں کا گلدستہ ایجاد کیا۔شکاری دور سے زراعت کے دور کا سفر کیا۔انسان ایگری کلچر سے کلچر یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ پھر دریاوں کے کنارے نئے شہر اور تہذیبوں کی بنیادیں قائم کیں۔ انسان کی ترقی و خوشحالی اور تعمیر نو کا سفر قصوں کا سننا اور سنانا کی بدولت ممکن ہوا۔
مجھے قصے کی صنف سے جنون کی حد تک لگاؤ اس وجہ سے ہے کہ میرا ایم فل تھیسز بعنوان ” قلعہ ڈیراور وچ وسدے لوکاں دے قصے” پی ایچ ڈی مقالہ بعنوان”سرائیکی لوک قصیں اتے چولستانی قصیں دے اثرات” ہے۔ ایم اے میں مقالہ ” احمدپورشرقیہ دی سرائیکی ادبی گوجھی” ریسرچ ورک شعبہ سرائیکی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پاکستان، دراصل میری ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کا قصہ ہے۔مشہور کہاوت ہے” ضرورت ایجاد کی ماں ہے”۔قصہ کی حقیقی محافظ مادری زبان ہی رہی اور رہے گی۔عہد پتھر یعنی ابتدائی دور میں انسانوں نے خود کو دوسرے حیوانات سے تحفظ کیلئے اور سخت غذاء کو نرم کرنے اور جزو جسم کی ضرورت پوری کرنے کیلئے اور خوف کو دور کرنے کے لیے آگ کا استعمال کیا تھا۔
سماج کا بنیادی یونٹ میاں بیوی ہیں۔انسانی جبلت ہے وہ اپنی خوشی وغم دوسرے انسان سے لازمی سانجھا کرتا ہے۔اپنے مسکن کی جگہ آگ کے گرد بیٹھ کر قصوں کا آغاز ہوا تھا۔قصوں کی بدولت انسانی ادب وتمدن نےجنم لیا۔جب انسان ابھی سیکھ رہا تھا،قصے سننا اور سنانا انسان کے ارتقائی سفر کا ایک لازمی حصہ تب بھی رہاتھا اور آج بھی ہماری زندگیوں کو معنی اور سمت فراہم کررہاہے۔انسان کے آغاز سے ہی قصوں نے اس کا ساتھ نبھایا ہے….۔ (جاری ہے)۔۔