کیا واقعی مہنگائی کم ہوگئی ہے؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
اسلام آباد میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں وزارتِ خزانہ نے عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کے وفد کے ساتھ ملاقاتوں پر بریفنگ دی۔ اجلاس میں وزیراعظم نے دعوی کیا کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے باعث ملک میں اقتصادی استحکام کی راہ ہموار ہو رہی ہے اور اس کے مثبت اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ ان کے مطابق مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد تک آ گئی ہے جبکہ شرحِ سود بھی 22 فیصد سے کم ہو کر 15 فیصد پر آ گئی ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے عوام کو ریلیف دینے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ شرحِ سود میں کمی کے باعث کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس کے علاوہ وزیرِ اعظم نے پنجاب حکومت کی زرعی شعبے میں اصلاحات کی تعریف بھی کی۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومتی دعوے زمینی حقائق سے میل کھاتے ہیں؟ آج کے دور میں عام آدمی کی زندگی شدید مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر گھی، چینی، دالوں، واشنگ پاوڈر اور دیگر ضروری اشیا کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے دور ہیں۔ کیا وزیرِ اعظم نے کبھی خود بازار میں جا کر سبزی، گوشت یا بچوں کی اسکول کی سٹیشنری خریدی ہے؟ کیا انہوں نے عام آدمی کی طرح کسی سرکاری ہسپتال میں علاج کرایا ہے؟ یا وہاں کے مسائل کا سامنا کیا ہے؟
وزیرِ اعظم کے یہ دعوے کہ مہنگائی کی شرح میں کمی آئی ہے جو اس وقت جھوٹے اور خالی اعداد و شمار لگتے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، اور بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی جیسے مسائل نے عوام کو اذیت ناک حالات سے دوچار کر دیا ہے۔ عوامی نمائندے اور حکومت اگر واقعی عوام کی بہتری کے خواہاں ہیں تو انہیں خالی باتوں اور بے بنیاد اعداد و شمار کے بجائے عملی اقدامات کی جانب بڑھنا ہوگا، ٹیکس چوروں اور ان کے معاونین کے خلاف سخت کارروائی کی یقین دہانی بھی حکومت کے ان وعدوں میں شامل ہے، جن کا عملی مظاہرہ عوام کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ ملکی معیشت کی مضبوطی کا دعویٰ تب ہی حقیقت کا روپ دھارے گا جب حکومت عوام کو ریلیف دینے کے عملی اقدامات کرے گی۔
حکومت کا دعوی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق معاشی اصلاحات کر رہی ہے لیکن ان اقدامات کے اثرات عوام پر براہِ راست منفی پڑ رہے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ یہ معاشی پالیسیاں صرف معاشی اعداد و شمار کو بہتر بنانے کے لیے ہیں جبکہ عوام کے مسائل اور ان کی مشکلات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں وقتی تیزی کو عوامی فلاح سے جوڑنا شاید حقیقت سے دور ہے کیونکہ زمینی سطح پر معیشت کی بہتری کے اثرات عوام کو محسوس نہیں ہو رہے۔
وزیرِ اعظم نے ٹیکس چوری کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کیا اور کہا کہ ٹیکس نادہندگان کو سزا دی جائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ
آیا یہ اقدامات صرف الفاظ تک محدود رہ جائیں گے یا حقیقی عمل بھی ہوگا؟ پاکستان میں ٹیکس نظام کی اصلاح کی ضرورت ہے مگر اس کی کامیابی کے لیے بدعنوانی اور غیر منصفانہ ٹیکس نظام کو بھی ہدف بنانا ہوگا۔
عوامی سطح پر یہ احساس شدت اختیار کر رہا ہے کہ حکومت کی پالیسیاں عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کا شعبہ مشکلات کا شکار ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ناقص سہولیات، مہنگی ادویات اور تعلیمی اخراجات نے متوسط طبقے کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔بازار میں سبزی، گوشت، بچوں کی سکول کی سٹیشنری اور دیگر اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتیں عوامی بے چینی کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ وزیرِ اعظم سے سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے کبھی عوام کی طرح ان مسائل کا سامنا کیا ہے؟ اگر نہیں تو وہ ان کی مشکلات کو کیسے سمجھ سکیں گے؟
وزیرِ اعظم اور ان کی ٹیم کو چاہیے کہ وہ محض اعداد و شمار کے ذریعے عوام کو خوش کرنے کے بجائے حقیقی اور ٹھوس اقدامات کریں۔ معاشی پالیسیوں کا مقصد صرف بین الاقوامی اداروں کی خوشنودی حاصل کرنا نہیں بلکہ عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانا ہونا چاہیے۔ مہنگائی کے خاتمے، روزگار کی فراہمی اور صحت و تعلیم کے شعبوں میں اصلاحات کے ذریعے ہی عوامی مشکلات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر حکومتی دعوے محض سیاسی نعروں کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوں گے۔