پاکستان میں شادی بیاہ کے سماجی و قانونی ڈھانچے میں، دوسری شادی (تعددِ ازواج) اور کم عمری کی شادی ایسے اہم معاملات ہیں جو نہ صرف خاندانوں کی ساخت بلکہ خاص طور پر خواتین کے بنیادی حقوق اور ان کی زندگی کے امکانات کو گہرے طور پر متاثر کرتے ہیں۔ یہ دونوں رجحانات روایت، مذہب اور قانون کی ایک پیچیدہ آمیزش میں جکڑے ہوئے ہیں، اور حقوقِ نسواں کے تناظر میں شدید تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔

کم عمری کی شادی، جسے بعض علاقوں میں ’بچپن کی شادی‘ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کے کئی دیہی اور پسماندہ علاقوں میں ایک تشویشناک حقیقت ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں لڑکیوں کی شادی 18 سال کی قانونی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہے۔ حالانکہ سندھ جیسے صوبوں نے لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کر دی ہے، اور وفاقی سطح پر بھی اس کے خلاف سخت قوانین اور سزائیں موجود ہیں، مگر یہ رواج اپنی جڑیں گہری رکھتا ہے۔ چھوٹی عمر میں شادی کا سب سے پہلا وار تعلیم پر ہوتا ہے۔ کم عمری میں رشتہ ازدواج میں بندھنے والی بچیاں اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری نہیں رکھ پاتیں، جس سے ان کی صلاحیتوں کا غیر ارتقائی اختتام ہو جاتا ہے۔ نوعمری میں حمل اور زچگی کے دوران پیچیدگیاں لڑکیوں کی صحت کے لیے سنگین خطرہ بن جاتی ہیں۔ پاکستان میں زچگی کے دوران ہونے والی اموات میں ایک بڑا حصہ کم عمر ماؤں کا ہوتا ہے۔ نابالغ لڑکی، جو جذباتی اور ذہنی طور پر ازدواجی ذمہ داریوں کے لیے تیار نہیں ہوتی، اکثر گھریلو تشدد، زبردستی اور جذباتی استحصال کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ شادی اس کا بچپن، بے فکری اور خود مختاری چھین لیتی ہے۔ چونکہ یہ شادیاں اکثر والدین یا خاندان کے فیصلے پر ہوتی ہیں، لڑکی سے اس کے زندگی کے سب سے اہم فیصلے یعنی شریک حیات کے انتخاب کا حق سلب کر لیا جاتا ہے۔

اسلام میں تعددِ ازواج کی مشروط اجازت ہے، لیکن پاکستان میں مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کے تحت مرد کو دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی سے تحریری اجازت اور یونین کونسل سے اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس قانون کا مقصد خواتین کے حقوق کا تحفظ اور مردوں کے صوابدیدی اختیار پر قدغن لگانا تھا۔ اگرچہ قانون میں پہلی بیوی کی اجازت لازمی ہے، لیکن کئی واقعات میں مرد حضرات یونین کونسل سے رجوع کیے بغیر یا پہلی بیوی پر دباؤ ڈال کر دوسری شادی کر لیتے ہیں۔ اس صورت میں پہلی بیوی اور اس کے بچوں کے حقوقِ کفالت، مساوات اور جذباتی استحکام شدید خطرے سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ دوسری بیوی کو لانے سے اکثر پہلی بیوی اور بچوں کو مالی اور جذباتی طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ تعددِ ازواج میں تمام بیویوں کے ساتھ مکمل اور برابر کا سلوک، جو کہ مذہبی حکم بھی ہے، عملی طور پر ایک نازک توازن بن جاتا ہے جسے برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔قانون موجود ہونے کے باوجود، دیہی اور دور دراز علاقوں میں اس کی کمزور عملداری اور کم آگاہی کی وجہ سے خواتین اپنے قانونی حقوق سے واقف نہیں ہوتیں اور انہیں استعمال کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔

یہ دونوں سماجی و قانونی چیلنجز خواتین کی حیثیت اور ان کے وقار کے خلاف ہیں۔ حقوقِ نسواں کی حقیقی پاسداری کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں ، کم عمری کی شادی اور غیر قانونی تعددِ ازواج کے خلاف قوانین کو پورے ملک میں بلا امتیاز مذہب و علاقے سختی سے نافذ کیا جائے۔ لڑکیوں کی تعلیم کو ترجیحی بنیادوں پر یقینی بنایا جائے تاکہ وہ شعور اور معاشی خودمختاری حاصل کر سکیں اور اپنے شادی کے فیصلے خود کر سکیں۔ مذہبی رہنماؤں، اساتذہ اور میڈیا کے ذریعے ان سماجی برائیوں کے خلاف مہم چلائی جائے اور اسلام میں خواتین کو دیے گئے حقوقِ مساوات و عدل کی صحیح تفہیم کو فروغ دیا جائے۔تمام صوبوں میں لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر کو 18 سال پر لانا اور اس کی خلاف ورزی پر سزاؤں کو سخت کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

پاکستان میں خواتین کی مکمل خودمختاری کا سفر تب تک ادھورا رہے گا جب تک کم عمری کی شادی اور تعددِ ازواج جیسے مسائل پر تحقیقاتی، تنقیدی اور اصلاحی نظر نہیں ڈالی جاتی۔ خواتین کو صرف خاندان کی زینت نہیں، بلکہ ایک آزاد، باشعور اور بااختیار شہری تسلیم کرنا ضروری ہے تاکہ وہ نہ صرف اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکیں بلکہ ایک مستحکم معاشرے کی تشکیل میں اپنا پورا کردار ادا کر سکیں۔

Shares: