آدمی کو بے سر و ساماں نہ لکھ
کچھ بھی لکھ لیکن تہی داماں نہ لکھ
ڈاکٹر جی آر کنول
16؍نومبر 1935 : یوم پیدائش
اردو کے ممتاز شاعر گلشن رائے المعروف ڈاکٹر جی آر کنول 16؍نومبر 1935ء کو لاہور، غیر منقسم ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ پاکستان کی تشکیل زیر غور ہی تھی کہ لاہور کے متعدد ہندو سکھ گھرانوں نے سلسلۂ ہجرت (قسطوں میں) شروع کر دیا تھا۔ کنول آخری قسط میں اپنے والد محترم کے ہمراہ لاہور سے سیالکوٹ جمیون، پٹھان کوٹ، امرتسر اور دیگر شہروں کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے ایک سال میں دلی پہنچے۔ سفر کا بیشتر حصہ، پا پیادہ تھا اس لیے مسلسل آبلہ پائی کا سبب بنا ہر طرف ایک کربناک منظر در پیش تھا۔ آتش زنی، افراتفری اور قتل و غارت گری کے ماحول میں باحفاظت سفر کرنا آسان نہیں تھا۔ دلی پہنچ کر بھی سکون میسر نہ ہوا۔ کئی سال تک خانہ بدوشی اور بے سرو سامانی کا سایہ نصیب رہا۔ ان کے والد محترم کاروباری مشاغل کے علاوہ ”پیسہ اخبار لاہور“ سے وابستہ تھے۔ انھوں نے کنولؔ صاحب کے ادبی ذوق کو بچپن ہی میں پہچان لیا تھا۔ وہ انہیں شورشؔ کاشمیری، عطاء ﷲ خاں بخاری اور استاد ہمدمؔ کی محلفوں میں دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے۔
ان کی ابتدائی تعلیم تو لاہور ہی میں مکمل ہو چکی تھی۔ مڈل سے لے کر انگریزی میں پی۔ ایچ۔ ڈی تک کے مراحل بڑی سخت جانی سے دلی میں طے کرنے پڑے۔ وہ دلی میں تنہا ہی تھے کیوں کہ ان کے والدین انبالہ شہر میں آباد ہوگئے تھے۔ ایک لمبے عرصے تک دلی کے گلی کوچوں، خصوصا اردو بازار کے اطراف کی خاک چھانی جہاں اُس وقت کی بلند قامت شخصیتوں مثلاً جوشؔ ملیح آبادی، مجازؔ لکھنوی، علامہ انورؔ صابری، شعریؔ بھوپالی اور مخمورؔ دہلوی کے دیدار ہو جاتے تھے۔ اُردو بازار ہی میں ان کا رابطہ استاد رساؔ دہلوی سے ہوا جو کئی سال تک قائم رہا لیکن کبھی تلمذ میں تبدیل نہ ہوا۔ اس بازار سے تھوڑی دور کنولؔ صاحب نے کچھ عرصہ تک ادارۂ شرقیہ میں مولوی عبدالسمیع صاحب کے سامنے زانوئے ادب تہ کرکے فارسی نظم ونثر کا مطالعہ کیا جو ان کی ذہنی اور اخلاقی نشو و نما میں بہت کار گر ثابت ہوا۔
کنولؔ کی معاشی زندگی کی ابتداء ایک اردو ہفت روزہ اخبار ”ساتھی دیکلی“ کی اشاعت اور ادارت سے ہوئی۔ چند سال بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا کیوں کہ اردو زبان کے قارئین کی تعداد بڑی تیزی سے رو بہ زوال ہو رہی تھی۔ مصلحتاً انہوں نے انگریزی صحافت اور انگریزی زبان و ادب کی درس و تدریس کی طرف رجوع کیا۔ کنول نے دلی یونیورسٹی کے آر ایل اے کالج کی لیچررشپ کی۔ دلی سینئر سیکنڈری اسکول اے ایس وی جے کی تقریباً 20 سال تک پرنسپل رہے۔ سمیر مل جنین پبلک اسکول جنگ پوری، نئی دہلی کی ڈائرکٹر اور ڈاون پبلک اسکول پچھم وبار نئی دہلی اور ڈون پبلک اسکول پنچکولہ (ہریانہ) کی چیئر مین کے منصبی فرائض انجام دیے۔ علاوہ ازیں کئی تعلیمی، ادبی اور سماجی تنظیموں کی عہدے داری اور اہم رکنیت حاصل رہی۔ کئی باوقار اعزازات سے بھی نوازے گئے۔ ان کا پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ اٹھارہویں صدی کے عظیم طنز نگار شاعر نثار جوناتھن سوفٹ کے ”نظریۂ انسان“ پر ہے اور بیشتر تصانیف انگریزی ادب کے اُن شہ پاروں پر ہیں جو بی۔ اے آنرز یا ایم۔ اے کے نصاب میں شامل ہوتے ہیں۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:👇
”شیشہ ٹوٹ جائے گا“ 1991ء، ”قلم آشنا“ 2003ء، ”درد آشنا“ 2006ء، ”غزل آشنا“ 2008، ”نیند کیوں نہیں آتی“ 2009ء، ”ریزہ ریزہ زندگی“ 2011ء وغیرہ۔
#بحوالہ_مجموعۂ_کلام_قلم_آشنا
💫� ڈاکٹر جی۔ آر۔ کنولؔ کی شاعری سے منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدمی کو بے سروساماں نہ لکھ
کچھ بھی لکھ لیکن تہی داماں نہ لکھ
——
بے مزہ کردے جو تیری زندگی
اُس دوا کو درد کا درماں نہ لکھ
——
ندی جیسے کوئی بے آب سی ہے
ہماری زندگی بے خواب سی ہے
——
لمحہ لمحہ بے انتشار مرا
لمحہ لمحہ بکھر رہا ہوں میں
——
کبھی زینہ، کبھی در بولتا ہے
مرے اندر مرا گھر بولتا ہے
——
کیسے کہہ دوں بچھڑ گیا ہے وہ
اُس نے مقطع ابھی نہیں لکھا
——
لوگ کہتے ہیں مشت خاک مگر
اپنے اندر تو کائنات ہوں میں
——
حرف اول سے حرف آخر تک
کون سمجھے یہ زندگی کیا ہے
——
قلندر ہوں مری خواہش نہ پوچھو
میں دُنیا میں فقیری چاہتا ہوں
——
دیار زندگی سینے میں تیرے
مرے دل کا دیا بھی جل رہا ہے
——
ذوق آوارگی سے بہتر تھا
ہم کسی در پہ مر گئے ہوتے
——
آه! قسمت کہ ہاتھ خالی ہیں
اف یہ خواہش کہ سب ہمارا ہو
——
ابھی ہے نا مکمل ہر فسانہ
ابھی دنیا ادھوری داستاں ہے
——
اوس اب اُنگلیاں جلاتی ہے
جیسے شبنم نہ ہو شرارا ہو
——
روح بھی چاہیے کنولؔ اُس میں
صرف پیکر سے کچھ نہیں ہوتا
——
ناز ہے جس پر مجھے اے ہم نفس
وہ ترا چہرہ نہیں کردار ہے
——
بہت میلی ہے میرے دل کی چادر
نہیں آنسو کوئی اب دھونے والا
——
دھوپ یہ کہہ کے ہوگئی غائب
میرے سائے کی اب پرستش کر
——
موج در موج ہو تو بات بھی ہے
قطره قطره شراب بے معنی
——
جس پہ چہکا تھا اک پرندہ آج
مدتوں سے تھا وہ شجر خاموش
——
کبھی تو بے ٹھکانہ پنچھیوں کا
بنانے گی ہوا خود آشیانہ
——
تو ہے خاموش اور برسوں سے
میرے دل میں سوال کتنے ہیں
——
زندگی بھر یہاں وہاں ٹھہرے
پھر بھی دنیا میں بے نشاں ٹھہرے
——
آپ آئیں تو ختم ہو قصہ
آپ جائیں تو داستاں ٹھہرے
——
حقیقت خواب سے ہوتی ہے بہتر
ترے آگے تری تصویر کیا ہے
——
قلم بے روح کر دیتا ہے نسلیں
قلم کے سامنے شمشیر کیا ہے
——
میری دستک تو تھی مکمل ہی
اُس نے کھولا تھا اپنا در آدھا
——
میرا آغاز ہے جب اک معمہ
کسے معلوم ہے انجام میرا
——
کہاں تک ٹھوکریں کھاؤں جہاں میں
کوئی پتھر نہیں انسان ہوں میں
——
نام ہر آدمی کا فانی لکھ
صرف اعمال جاودانی لکھ
——
زباں خاموش ہو جاتی ہے میری
مگر چہرہ برابر بولتا ہے
——
رند وہ ہو گیا خراب بہت
جس کو ساقی نے دی شراب بہت
——
کیسے بچتا چبھن سے کانٹوں کی
جس کے دامن میں تھے گلاب بہت
——
مکمل ہو تو سننے کا مزہ ہے
ادھوری داستاں کچھ بھی نہیں ہے
——
سلگتی آگ بے سرمایہ دل کا
کنولؔ اُس میں دھواں کچھ بھی نہیں ہے
👈 #بحوالہ_مجموعۂ_کلام_ریزہ_ریزہ_زندگی