خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سیکورٹی فورسز نے حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ مختلف اضلاع میں ہونے والے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کے دوران کئی اہم شدت پسند کمانڈرز مارے گئے، جب کہ قبائلی عمائدین نے امن و امان کے قیام اور عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے ریاستی اداروں سے مکمل تعاون کا عزم دہرایا۔
خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے کے مطلوب ترین دہشت گردوں کی فہرست جاری کر دی ہے، جس میں مجموعی طور پر 4.14 ارب روپے کے انعامات مقرر کیے گئے ہیں۔سی ٹی ڈی کے مطابق صوبے میں اس وقت 1,351 خطرناک دہشت گرد سرگرم ہیں، جو رواں سال کے دوران 500 سے زائد حملوں میں ملوث رہے۔ فہرست میں کرم کے کاظم خان (تین کروڑ روپے)، کمانڈر امجداللہ (دو کروڑ روپے) اور باجوڑ کے مولوی فقیر محمد (ڈیڑھ کروڑ روپے) سمیت کئی نام شامل ہیں۔سرکاری ذرائع کے مطابق ان میں سے متعدد دہشت گرد افغانستان سے بھارتی حمایت یافتہ نیٹ ورکس کے ذریعے کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔
باجوڑ کے علاقے دامادولا میں سیکورٹی فورسز نے ایک اہم کارروائی کے دوران کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مرکزی کمانڈر قاری امجد سواتی عرف مفتی مزاحم کو ہلاک کر دیا۔ذرائع کے مطابق قاری امجد کے سر کی قیمت پچاس لاکھ روپے مقرر تھی۔ کارروائی خفیہ اطلاع پر عمل کرتے ہوئے کی گئی، جس میں اس کے متعدد ساتھی بھی مارے گئے۔ چند روز قبل منظر عام پر آنے والی ایک ویڈیو میں اس کی باجوڑ میں موجودگی کی تصدیق ہوئی تھی۔
سیکورٹی ذرائع کے مطابق اسلامک اسٹیٹ خراسان (ISKP) سے تعلق رکھنے والا سینئر کمانڈر عرب خان عرف ضیاء الدین ایک آپریشن میں ہلاک ہو گیا۔وہ ٹی ٹی پی کے کمانڈر مالنگ بچہ کے ساتھ مل کر سیکیورٹی فورسز پر حملوں اور ہدفی قتل کی کئی وارداتوں میں ملوث تھا۔اطلاعات کے مطابق ضیاء الدین کو افغان طالبان کے انٹیلی جنس ونگ کی معاونت سے ایک کارروائی کے لیے بھیجا گیا تھا، جو ٹی ٹی پی اور داعش کے بڑھتے گٹھ جوڑ کو ظاہر کرتا ہے۔
ضلع مہمند کے علاقے عنبر میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں فتنہ الخوارج، جماعت الاحرار سے وابستہ دہشت گرد اسداللہ عرف یار مارا گیا۔ذرائع کے مطابق وہ سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر حملوں، بھتہ خوری اور تخریب کاری میں ملوث تھا۔اسی دوران ڈی آئی جی سجاد خان اور ڈی پی او سلیم عباس کلچی نے قبائلی عمائدین سے ملاقات کی، جنہوں نے علاقے میں امن و استحکام کے لیے سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مکمل تعاون کا یقین دلایا۔
سنٹرل کرم میں ایک خفیہ آپریشن کے دوران دہشت گردوں کے زیر استعمال آن لائن رابطہ نیٹ ورک اور کمپیوٹر سینٹر کو تباہ کر دیا گیا۔آپریشن کا مقصد علاقے میں دہشت گردوں کے رابطے کے ذرائع کو منقطع کرنا تھا۔
ضلع بنوں کے علاقے ککی میں پولیس اہلکار کانسٹیبل پیر عباس پر دہشت گردوں نے حملہ کیا، تاہم وہ محفوظ رہے۔ فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گرد زخمی ہوا جبکہ دیگر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس نے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے اپی گاؤں، ڈامی پل روڈ پر پولیس موبائل پر دہشت گردوں نے فائرنگ کی۔ پولیس کی جوابی کارروائی میں فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
پشاور کے علاقے چمکنی میں ڈکیتی کی واردات کے دوران بی آر ٹی کے سیکیورٹی گارڈ محمد عاصم کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔پولیس کے مطابق عاصم کی شادی 16 نومبر کو طے تھی اور شادی کے دعوت نامے تقسیم ہو چکے تھے۔ پولیس نے ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے۔
بلوچستان کے علاقوں چلتن (کوئٹہ) اور بلیدہ (کچ) میں ہونے والے آپریشنز میں سیکیورٹی فورسز نے 18 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔آئی ایس پی آر کے مطابق یہ دہشت گرد بھارتی حمایت یافتہ نیٹ ورک فتنۂ ہندستان سے وابستہ تھے اور صوبے میں تخریب کاری کی متعدد کارروائیوں میں ملوث تھے۔کارروائیوں میں بھاری مقدار میں اسلحہ اور بارودی مواد بھی برآمد ہوا۔ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے تِلی میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے لیویز اہلکار محمد حسین شہید اور ایک اہلکار جمیل شیخ زخمی ہوگئے۔زخمی کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، جبکہ فورسز نے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا۔قلات میں ایک نامعلوم عسکریت پسند تنظیم نے دو حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، تاہم سیکیورٹی ذرائع نے ابھی اس دعوے کی تصدیق نہیں کی۔بیان کے مطابق عسکریت پسندوں نے مکائی میں راشن پہنچانے والی گاڑیوں اور گیراپ کے علاقے میں ایک فوجی چوکی کو نشانہ بنایا۔سیکیورٹی ادارے حملوں کی نوعیت اور نقصان کی تصدیق کے لیے تحقیقات کر رہے ہیں۔
ان تازہ کارروائیوں اور اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک بھر میں سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے نیٹ ورکس کے خلاف فیصلہ کن مرحلہ شروع کر دیا ہے، جس میں مقامی عوام، قبائلی عمائدین اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔











