ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کے عوام کے ساتھ مل کر دہشتگردی کی جڑ کو اُکھاڑ پھینکیں گے،ایک سال میں 14535 آپریشن کیے، کامیاب آپریشنز دہشتگردوں کے ناپاک حملے کا بدلہ ہے،ہم سب کو ملکر دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔
پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج کا کہنا تھاکہ میں پشاور اسی لیے آیا ہوں کہ خیبرپختونخوا کے بہادر عوام کے ساتھ بیٹھ کر دہشت گردی کے خلاف ہماری کارروائیوں اور چیلنجز کو واضح کروں، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں خیبرپختونخوا کے عوام کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، پاکستانی افواج دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں،2024 کے دوران 577 جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا، کے پی میں 2024 کے دوران 14 ہزار 500 سے زائد آپریشنز کیے گئے،خیبرپختونخوا میں ساڑھے 14 ہزار سے زائد آپریشنز کیے گئے،
دہشتگردی بڑھنے کی وجہ اس پہ سیاست اور انکے لیے کے پی کے میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنا ہے ۔ترجمان پاک فوج
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخواہ میں گمراہ کن بیانیے بنانے کی کوشش کی گئی، جس کا خمیازہ خیبرپختونخواہ کے عوام بھگت رہے ہیں۔نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں ہوا، ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں کو خیبرپختونخوا میں جگہ دی گئی،نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی، دہشت گردی پر سیاست، بھارت کا افغانستان کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے بیس کے طور پر استعمال کرنا، افغانستان کا دہشت گردوں کو اسلحہ اور پناہ گاہیں دینا اور اور دہشت گردوں کو مقامی اور سیاسی پشت پناہی ملنا دہشت گردی کے پانچ بنیادی عوامل ہیں،گورننس کو برباد کرنے کی کوشش کی گئی ،2021 میں نیشنل ایکشن پلان سے چیزوں کو نکالا گیا۔نیشنل ایکشن پر مکمل عمل نہیں ہوا جس سے دہشتگردی بڑھی۔14 نکات میں شامل تھا کہ آپ دہشتگردوں اور خوارج کو ماریں گے، گزشتہ سالوں میں جو خوارج مارے گئے ان میں 161 افغانی 30 قریب خودکش بمبار بھی افغان نیشنیلیٹی والے تھے۔رواں سال مارے جانے والے خارجیوں کی تعداد پچھلے دس سالوں سے زیادہ ہے۔ دہشتگردی بڑھنے کی وجہ اس پہ سیاست اور انکے لیے کے پی کے میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنا ہے ۔ دہشتگردوں کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے ، خیبر پختونخوا میں امن کے قیام کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ 2024 میں 769 دہشتگرد جہنم واصل کئے 2025 میں اب تک 10,115 انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز ہوئے ہیں رواں سال 516 اہلکاروں نے جامِ شہادت نوش کیا،ہزاروں معصوم شہریوں قانون نافذ کرنے والے اداروں انٹیلیجنس ایجنسیز، افواج پاکستان، پولیس، اور ایف سی کے جوانوں نے اپنے خون پاکستان کی دھرتی کو سینچا ہے،خیبر پختونخوا میں مدارس کو رجسٹر تک نہیں کر سکے.
اگر ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو اتنی جنگیں اور غزوات نہ ہوتے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر
افغانستان کو بھارت کی جانب سے دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے؛ ڈی جی آئی ایس پی آر
ترجمان پاک فوج کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کی جاتی ہے، کیا ہر مسئلے کا حل مذاکرات ہے؟ ہر مسئلے کا حل مذاکرات ہوتے تو جنگ بدر نہ ہوتا، اگر ہر مسئلے کا حل مذاکرات ہوتا تو بدر کی جنگ کو یاد رکھیں، کہ سرور کُونین، دو جہان جن کےلئے بنائے گئے، وہ ذات جس سے بڑھ کر کوئی انسان نہیں، کیوں نہیں اُس دن اُنہوں نے بات چیت کر لی، اُدھر تو باپ کے آگے بیٹا کھڑا تھا، بھائی کے آگے بھائی کھڑا تھا، کیا ہر چیز کا حل بات چیت میں ہے؟ اگر ہر چیز کا حل بات چیت ہوتا تو دنیا میں جنگیں نہیں ہوتی، جب 9 اور 10 مئی کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تب یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ بھارت سے بات چیت کریں،جب بھارت کے میزائل آئے تو عوام نے کیوں نہیں کہا کہ بات چیت کر لیں، افغانستان میں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں، بھارت ان دہشتگردوں کو سہولت فراہم کر رہا ہے اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔آج یہ بیانیہ کہاں سے آ گیا کہ افغانوں کو واپس نہیں بھیجنا تو کیا آپ 2014 میں غلط تھے، 2021 میں غلط تھے، آج ریاست کہہ رہی ہے کہ افغان بھائیوں کو واپس بھیجیں تو سیاست کی جاتی ہے، بیانئے بنائے جاتے ہیں، گمراہ کُن باتیں کی جاتی ہیں،ایک بیانیہ بنایا جائے کہ سب مل کر، یک زبان ہو کر دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہوں۔ یہ ہم نے نہیں کہا، یہ وہ بات ہے جس پر آپ کی سیاسی جماعتیں 2014 سے متفق ہیں، سوال یہ ہے کیا آج ہم واقعی ایک بیانیے پر کھڑے ہیں،
یہ جو خیبرپختونخوا میں دہشتگردی ہے، اُس کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے،ترجمان پاک فوج
کسی فرد واحد کو پاکستان کا سودا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ، ڈی جی آئی ایس پی آر
خوارج اور ان کے سہولت کار اب نہیں بچ جائیں گے،دہشتگردی پر کوئی سمجھوتہ نہیں،ترجمان پاک فوج
ترجمان پاک فوج نے اعلان کیا کہ ہم دہشتگردی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے، چاہے وہ بھارت سے ہو یا افغانستان سے۔پنجاب اور سندھ میں دہشتگردوں کے کیمپس کیوں نہیں ہیں ؟ دہشتگرد وہاں بھی آپریٹ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہاں انکے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔وہاں گورننس قائم ہے ۔ سیاسی دہشتگردی موجود نہیں ہے ،کے پی کے صوبے میں گورننس کے بجائے سیاست کی جاتی ہے۔جبکہ باقی صوبوں میں ایسا نہیں ہوتا۔
اسی وجہ سے آرمی چیف کہہ چکے ہیں کہ انہیں گورننس کے گیپس کو فوج کے جوان اپنے خون سے پر کر رہے ہیں۔منشیات اسمگلنگ ، بھتہ خوری ، اغواء برائے تاوان اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں سے پاک کرنا ہے ، جب کام کرتے ہیں تو مخٹلف جگہوں سے آوازیں آتی ہیں،یہ جو خیبرپختونخوا میں دہشتگردی ہے، اُس کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے، پاکستان کی سکیورٹی کسی دوسرے ملک کو نہیں دی جا سکتی،اس کی سکیورٹی صرف پاکستان کے ادارے کریں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ کے پی حکومت افغانستان سے سیکیورٹی کی بھیک مانگنے بغیر خیبرپختونخوا کے عوام کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے، دہشتگرد یا انکے سہولت کار کسی بھی عہدے پر ہو انکے خلاف زمین تنگ کر دی جائے گی،کسی فرد واحد کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنی ذات اور اپنے مفاد کےلئے پاکستان اور خیبرپختونخوا کے غیور اور باعزت عوام کی جان، مال اور عزت کا سودا کرے، خوارج کی پشت پناہی کرنے والے خوارج کو ریاست کے حوالے کریں یا اس ناسور کے خاتمے کیلئے افواج پاکستان کا ساتھ دیں۔ بصورت دیگر ریاست کی جانب سے بھرپور ایکشن کیلئے تیار رہیں،ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اب ” سٹیٹس کو” نہیں چلے گا ۔ خارجیوں کے سہولت کاروں کے پاس دو چوائسز ہیں یا تو ان دہشتگردوں کو ہمارے حوالے کردیں یا خود ختم کردیں ورنہ یہ سہولتکار ہمارا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں ،چاہے وہ کوئی بھی ہو، کسی بھی عہدے پر ہو، اُس کےلئے زمین تنگ کر دی جائے گی کیونکہ پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر ایک بنیانُ مرصوص کی طرح دہشتگردوں اور اُن کے سہولت کاروں کےخلاف کھڑی ہے اور کھڑی رہے گی،ہم سیاسی شعبدہ بازی سے خوفزدہ نہیں ہوں گے ہم اپنے شہداء کی قربانیوں پر کسی کو سیاست کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔
کون ہے وہ شخص جو کہتا ہے مجھے ایسی صوبائی حکومت چاہیے جو آپریشن بند کرے؟ترجمان پاک فوج
ترجمان پاک فوج کا مزید کہناتھا کہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دہشتگرد جیسے عناصر کو جب آپ اِنہیں پالتے ہیں تو یہ سانپ کی طرح ہوتے ہیں، سانپ کو جو پالے گا، وہ سانپ پر کبھی بھروسہ نہیں کر سکتا، یہ افغانستان کےلئے اپنے لئے بھی خطرہ ہے،کون ہے جو کہہ رہا ہے آپریشن بند کردیں بات چیت کر لیں۔ کون ہے وہ شخص جو کہتا ہے مجھے ایسی صوبائی حکومت چاہیے جو آپریشن بند کرے؟، اُس وقت وہ ریاست کے ذمے دار تھے، آج ریاست کا حصہ نہیں، پھر بھی یہی کہہ رہے ہیں،کس سے بات چیت کرو، نور ولی محسود سے بات چیت کرو جو کہتا ہے مشرک سے بھی الحاق جائز ہے۔ جو بھارت سے ملا ہوا ہے کیا اس سے بات چیت کرسکتے ہیں۔
کے پی میں موجود 8 ہزار 11 مدارس میں سے صرف 4 ہزار 355 مدارس رجسٹرڈ ہیں۔ترجمان پاک فوج
ترجمان پاک فوج کا مزید کہنا تھا کہ اگست 2025 تک انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں 34 مقدمات زیرالتواء ہیں، جو صرف ایک ماہ کے دوران مؤثر پیش رفت نہ ہونے کی علامت ہیں، مجموعی طور پر ایسے مقدمات جنہیں تین سال سے کم عرصہ گزرا ہے، ان کی تعداد 2 ہزار 878 ہے، جبکہ تین سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود 1 ہزار 706 کیسز بدستور زیرالتواء ہیں، کیا وہی عدالتی نظام، جسے مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، آج اپنی ذمہ داری پوری کر رہا ہے؟ منشیات سے متعلق 10 ہزار 87 مقدمات میں سے صرف 679 کیسز میں سزائیں سنائی گئیں، جبکہ غیر قانونی اسلحہ اور اسمگلنگ سے متعلق 39 ہزار سے زائد کیسز میں صرف 6 ہزار 945 کیسز میں فیصلے ہوئے،خیبر پختونخوا میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کی کل تعداد صرف 3 ہزار 200 ہے، جو صوبے کے سیکیورٹی چیلنجز کے مقابلے میں ناکافی ہے۔ اس کے علاوہ صوبے میں موجود 8 ہزار 11 مدارس میں سے صرف 4 ہزار 355 مدارس رجسٹرڈ ہیں۔دہشت گرد صوبے میں آ کر مدارس میں گمراہ کرتے ہیں، لوگوں کو ورغلاتے ہیں، گلی محلوں میں غیر قانونی رہتے ہیں ، بم بناتے ہیں، یہ سب رپورٹ کرنا، پکڑنا صوبائی حکومت کی زمہ داری ہے،صوبائی حکومت گڈ گورنس سمیت اکنامک ایکٹیویٹی نا کرتے نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں کر رہی۔
پاکستان کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنے کے لیےجو ضروری اقدامات کیے جانے چاہئیں وہ کیے جائیں گے،ترجمان پاک فوج
ترجمان پاک فوج سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان نے گزشتہ رات افغانستان میں چار ایئر سڑائکس کیں؟ کیا اس کے نتیجے میں دہشتگرد نور ولی محسود ہلاک ہوا۔؟جس کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھاکہ پاکستان کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنے کے لیےجو ضروری اقدامات کیے جانے چاہئیں وہ کیے جائیں گے اور کیے جاتے رہیں گے۔افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ہمارا ان سے صرف ایک مطالبہ ہے کہ افغانستان کو دہشتگردوں کی آماجگاہ نہ بننے دیں، ہمارے وزرا بھی وہاں گئے اور انہیں بتایا کہ یہ دہشتگردوں کے سہولتکار ہیں۔ افغانستان میں موجود بھارتی پراکسیز کی جانب سے دہشتگردانہ کارروائیاں کی گئیں، افغانستان پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے بیس کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، اس کے ثبوت اور شواہد موجود ہیں۔پاکستان زندہ باد رہے گا، خیبر پختونخوا زندہ باد رہے گا، پاکستان کی سلامتی کے فیصلے صرف پاکستان میں ہونگے
فوج میں کسی کےخلاف قانونی کارروائی ہوتی ہے تو اُسے تمام قانونی حقوق حاصل ہوتے ہیں،ترجمان پاک فوج
ترجمان پاک فوج کا مزید کہنا تھا کہ فوج میں کسی کےخلاف قانونی کارروائی ہوتی ہے تو اُسے تمام قانونی حقوق حاصل ہوتے ہیں، اپنے لئے سول وکیل بھی کیا جا سکتا ہے، یہ بیانیہ ہوتا ہے کہ آرڈر دیا اور سزا دے دی، ایسے نہیں ہوتا، ریاست پاکستان اور اسکے عوام کو کسی ایسے شخص کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننے دیا جاسکتا، بالخصوص اُس کو جس پر پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے دوبارہ سر اُٹھانے کی بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے،سابق ڈائریکٹر جنرل( ڈی جی) انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا ٹرائل ہو رہا ہے، ان کا کورٹ مارشل ہورہا ہےفوج میں خود احتسابی کا عمل الزامات پر نہیں ہوتا بلکہ حقائق پر ہوتا ہے، فوج کا ریاست کے ساتھ سرکاری تعلق ہوتا ہے، ذاتی یا سیاسی نہیں، اس تعلق کو کوئی ذاتی بناتا ہے تو یہ غلط ہے، فیصلے ریاست کرتی ہے ہم نے ان معاملات میں اپنا ان پٹ اور رائےدیتے ہیں، ہم کسی کی سیاست کو لے کر نہیں چلتے، فوج کے اندر خود احتسابی کا ایک نظام ہے جس کو چارج کیا جاتا ہےاس کو خود کے دفاع کیلئے پورا موقع دیاجاتا ہے، ہمیں کسی تاخیر کی کوئی پریشانی نہیں ہےفیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ تعلق کو ذاتی اور سیاسی بنادیں توجوابدہی ہوگی، ہمیں آپ اپنی سیاست میں نہ لائیں، آپ کی سیاست آپ کو پیاری ہماری لیےتمام سیاسی جماعتیں قابل احترام ہیں۔








