خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان جھڑپوں، آپریشنز اور عوامی مزاحمت کے نتیجے میں کئی اہم دہشت گرد ہلاک ہوگئے، جب کہ بلوچستان میں بھی دہشت گردوں کی کارروائیوں پر ریاستی ردعمل جاری ہے۔
لوئر ماموند، باجوڑ میں سیکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں دو افغان جنگجو، عبدالواحد عرف ابو عبیدہ اور احمد بلال عرف زید ہلاک ہوگئے۔ دونوں کا تعلق افغانستان کے صوبہ لوگر کے ضلع محمد آغا کے گاؤں زرگون بار سے تھا۔ جھڑپ میں دیگر شدت پسند بھی زخمی ہوئے۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ کارروائی سرحد پار سے سرگرم گروہوں کی نقل و حرکت کے خلاف جاری آپریشن کا حصہ تھی۔
پشاور میں یونیورسٹی روڈ پر واقع کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD) کے تھانے میں صبح 7:56 پر زوردار دھماکہ ہوا۔ ابتدائی معلومات کے مطابق اسلحہ خانے میں شارٹ سرکٹ کے باعث آگ بھڑک اٹھی، جس سے متعدد دھماکے ہوئے۔ ریسکیو ٹیمیں موقع پر پہنچ کر آگ پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف رہیں۔ حکام نے مزید تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
پشاور کے علاقے میرا کچوری میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان ہونے والے مقابلے میں چار جرائم پیشہ افراد ہلاک ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں تین افغان باشندے بھی شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق ملزمان فرنٹیئر کور یا پولیس اہلکاروں کا روپ دھار کر شہریوں کو لوٹتے تھے اور گزشتہ دو دہائیوں سے راولپنڈی، نوشہرہ اور پشاور میں سرگرم تھے۔ جائے وقوعہ سے بھاری اسلحہ اور مسروقہ سامان برآمد کرلیا گیا۔
شمالی وزیرستان کے علاقے اسپین وام میں سیکیورٹی فورسز نے انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائی کرتے ہوئے گلبہادر گروپ کے مطلوب کمانڈر "بسم اللہ” کو ہلاک کردیا۔ ذرائع کے مطابق کمانڈر بسم اللہ متعدد دہشت گرد کارروائیوں اور سیکیورٹی اہلکاروں پر حملوں میں ملوث تھا۔ اس آپریشن سے علاقے میں شدت پسند نیٹ ورک کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔
ٹانک میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن (IBO) کے دوران کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا انتہائی مطلوب دہشت گرد عمر خالد مدخیل مارا گیا۔ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہونے والے دہشت گرد کی ہلاکت کی تصدیق خود ٹی ٹی پی نے بھی کردی ہے۔ اس کامیاب کارروائی کے بعد علاقے میں سیکیورٹی فورسز نے سرچ آپریشن مزید تیز کردیا ہے۔
ضلع مہمند کی تحصیل عمبر کے علاقے رمبت میں حالیہ کارروائی میں ہلاک ہونے والے چار غیر ملکی شدت پسندوں کی شناخت کرلی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق تین افغان شہری داعش (خوارج) نیٹ ورک سے منسلک تھے۔ شناخت شدہ افراد میں رحمت منصور، محمد فیروز، حافظ عمر اور مجاہد اللہ شامل ہیں۔ ان میں سے بعض کا تعلق افغانستان کے ننگرہار اور خوگیانی علاقوں سے تھا۔
جنوبی اضلاع میں شدت پسندوں کے خلاف عوامی ردِعمل میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ مقامی برادریاں شدت پسندوں کے گھروں کو نذرِ آتش کر رہی ہیں اور بعض مقامات پر دہشت گردوں کے خاندانوں کو دباؤ میں لانے کے لیے خود کارروائیاں بھی کی جا رہی ہیں۔ یہ عوامی مزاحمت دہشت گردوں کے اثر و رسوخ کے خاتمے میں اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر رپورٹس کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی اعلیٰ قیادت، جس میں نور ولی محسود اور ملا خراسانی شامل ہیں، نے تنظیمی سطح پر تین نکاتی ہدایات جاری کی ہیں۔ ان ہدایات میں پاکستان میں کارروائیاں روکنے، گروہوں کو تقسیم کر کے افغانستان واپس جانے اور مقامی حملے معطل کرنے کے احکامات شامل ہیں۔ مبصرین کے مطابق اگر یہ رپورٹس درست ثابت ہوئیں تو یہ پاکستان و افغانستان دونوں کے سیکیورٹی منظرنامے میں ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔
طورخم سرحد کو 21 دن بعد افغان شہریوں کی واپسی کے لیے جزوی طور پر کھول دیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق تجارتی سرگرمیاں اور ویزا ہولڈرز کی عام آمد و رفت بدستور معطل رہے گی، تاہم افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے عمل کو سہولت دینے کے لیے راستہ کھولا گیا ہے۔
بلوچستان کے ضلع کچھی میں بلوچ ریپبلکن آرمی (BRA) نے مبینہ طور پر فوجی قافلے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، تاہم سیکیورٹی حکام کی جانب سے ابھی تک اس واقعے کی تصدیق نہیں کی گئی۔ دوسری جانب قلات کے علاقے جوہان میں سیکیورٹی فورسز نے 100 کلوگرام وزنی بارودی مواد (IED) کامیابی سے ناکارہ بنا دیا، جب کہ منگچر میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک گاڑی کو آگ لگا دی اور ڈرائیور کو اغوا کرلیا۔
حالیہ کارروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی اداروں نے سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ساتھ ہی، عوامی سطح پر بڑھتی ہوئی مزاحمت شدت پسندوں کے لیے نئے چیلنجز کھڑے کر رہی ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ پائیدار امن کے لیے افغانستان کی حکومت کو بھی اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد نیٹ ورکس کے خلاف مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔







