خیبرپختونخوا میں تعلیم کا جنازہ.تحریر: جان محمد رمضان

3 مہینے قبل
تحریر کَردَہ
school

پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں تعلیمی شعبہ ایک بدترین بحران سے گزر رہا ہے، جس کی ایک جھلک ہمیں مختلف اعداد و شمار میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ بحران صرف نظام تعلیم کے بگڑنے کا نہیں، بلکہ ایک سنگین قومی مسئلے کا عکاس ہے جس کا اثر نہ صرف ہمارے بچوں کی تعلیم بلکہ ان کے مستقبل پر بھی پڑ رہا ہے۔آج خیبرپختونخوا میں 5.5 ملین بچے اسکول سے باہر ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے جو کسی بھی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ جب بچے اسکول سے باہر ہوں، تو نہ صرف ان کی تعلیم متاثر ہوتی ہے بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے پر اس کے منفی اثرات پڑتے ہیں۔ اسکولوں کی کمی اور معیار کی پستی کے باعث بہت سے بچے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع سے محروم ہو گئے ہیں، اور یہ ایک نسل کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔

خیبرپختونخوا کے اندر 591 سرکاری اسکول ایسے ہیں جو خالی پڑے ہیں۔ ان اسکولوں کی عمارتیں ویران پڑی ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ مقامی سطح پر اساتذہ کی کمی اور مناسب انتظامیہ کا نہ ہونا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 3,000 سے زیادہ اسکول بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں جیسے پینے کا صاف پانی، باتھرومز، مناسب کلاس رومز، اور درسی کتابیں وغیرہ۔جنوبی وزیرستان جیسے علاقے خصوصاً تعلیم کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ ان علاقوں میں امن و امان کی خرابی کی وجہ سے بچوں کے لیے اسکول جانا ایک خواب بن چکا ہے۔ یہاں نہ صرف اسکولوں کی تعداد کم ہے بلکہ بچوں کو اسکول پہنچنے کے لیے خطرات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اگر ان علاقوں میں تعلیم کی حالت بہتر نہ کی گئی تو آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت کا عمل مزید متاثر ہو گا۔

خیبرپختونخوا کے اساتذہ کا احتجاج اور ہڑتال بھی تعلیم کے بحران کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ اور بہتر کام کے حالات کے مطالبات پر حکومت کی طرف سے سنجیدہ توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ، تعلیمی بجٹ کی بدانتظامی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے جس کی وجہ سے اسکولوں کی حالت مزید بگڑ چکی ہے۔اس تمام تر تباہی کے باوجود، خیبر پختونخوا کے حکمران سوشل میڈیا پر انقلاب کے خواب بیچ رہے ہیں۔ وہ عوام کو نئے منصوبوں اور تعلیمی اصلاحات کی امید دلانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان منصوبوں کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ سوشل میڈیا پر انقلاب کا نعرہ لگانا اور عملی طور پر کسی تبدیلی کے بغیر کچھ کرنا صرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔

اس تمام صورتحال کا سب سے زیادہ اثر پشتون بچوں پر پڑ رہا ہے۔ یہ بچے اس بدترین تعلیمی بحران کا شکار ہیں اور ان کا مستقبل دن بہ دن مزید تاریک ہوتا جا رہا ہے۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو یہ بچے نہ صرف تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جائیں گے بلکہ سماجی اور اقتصادی ترقی میں بھی پیچھے رہ جائیں گے۔ہماری حکومتی قیادت اس صورتحال کے لیے ذمہ دار ہے۔ تعلیمی بحران کو حل کرنے کے بجائے، وہ صرف بیانات دیتے ہیں اور کسی بھی عملی قدم سے گریز کرتے ہیں۔ ان کی نااہلی کی وجہ سے اس وقت خیبرپختونخوا کے بچے تعلیم سے محروم ہیں اور ان کے مستقبل کا کوئی چہرہ نظر نہیں آ رہا۔

یہ سوال ہر کسی کے ذہن میں آتا ہے کہ اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہ حکومتی ناکامی ہے؟ یا یہ تعلیم کے نظام کی بنیاد میں موجود گڑبڑ ہے؟ ہر حال میں، ہمیں اس بدترین صورتحال سے نکلنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمیں نہ صرف تعلیمی اداروں کی حالت بہتر بنانی ہے بلکہ اساتذہ کی فلاح و بہبود اور بچوں کی تعلیم کے لیے ضروری وسائل فراہم کرنے ہوں گے۔تعلیمی بحران کا حل صرف حکومتی اقدامات سے ممکن ہے، جو اس وقت نااہلی اور بدانتظامی کا شکار ہیں۔ اس بحران کو حل کرنے کے لیے ہمیں ایک مضبوط حکومتی پالیسی اور قوم کی مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنا سکیں اور انہیں ایک بہتر تعلیم فراہم کر سکیں۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو ہم اپنے بچوں کا مستقبل تباہ ہونے سے بچانے میں ناکام رہیں گے۔

jaan

Latest from تعلیم

قوم کے معمار،ظلم وجبر کا شکار

قصہ درد:حکومت پاکستان، چیف منسٹر اور وزیر تعلیم کے نام تحریر:مبشرحسن شاہ ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم قصۂ درد سناتے ہیں