میں اکثر مرچ سالن میں زیادہ ڈال دیتی ہوں
کسی صورت تو ظاہر ہو مری رنجش مرا غصہ

شازیہ نیازی بہار شریف، شیخ پورہ میں 23 جولائی 1990 بی اے تک تعلیم حاصل کی انہوں نے 2016 سے شاعری کا آغاز کیا ادبی نام تسلیم نیازی استعمال کیا ان کی تصنیفات میں شعری مجموعہ 2020 میں لفظوں کی سازش چھپا ،تسلیم نیازی، بشیر بدر، پروین شاکر اور تہذیب حافی ان کے پسندیدہ شاعر ہیں ،سرکاری انعامات و اعزازات: ۔Eastern Railway، ۔Asansol Division، ۔Kavyanga،۔15/8/2018

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس ایک بار کہا نا نہیں بنا سکتی
میں روز روز بہانا نہیں بنا سکتی
ترا خیال مری روٹیاں جلاتا ہے
میں اطمینان سے کھانا نہیں بنا سکتی
ضرور وہ کسی آسیب کی گرفت میں ہے
میں اس قدر تو دِیوانہ نہیں بنا سکتی
سبھی کی تنگ خیالی نے گھر کو بانٹ دیا
اکیلی سوچ گھرانا نہیں بنا سکتی
نئے نئے سے یہ انداز چبھ رہے ہیں مگر
میں تم کو پھر سے پرانا نہیں بنا سکتی

غزل
۔۔۔۔۔
ہمیشہ دھیان میں رکھیو، بڑی کرسی بڑا غصہ
کہیں مہنگا نہ پڑجائے ہمیں سرکار کا غصہ
میں اکثر مرچ سالن میں زیادہ ڈال دیتی ہوں
کسی صورت تو ظاہر ہو مری رنجش مرا غصہ
چلو اب مان بھی لو تم، تمھیں ذہنی مسائل ہیں
ذرا سی بات پر کرتے ہو تم اچھا بھلا غصہ
مری ہر ڈانٹ پر بچے جواباً مسکراتے ہیں
بس اک مسکان سے اڑ جاتا ہے بن کر ہوا غصہ
تری خفگی کے سارے ذائقوں کا علم ہے مجھ کو
کبھی ہے نیم سا کڑوا کبھی ہے چٹپٹا غصہ
زمانے، میری من مانی پہ کیوں آنکھیں دکھاتا ہے
بہت دیکھے ترے جیسے تونگر، چل ہٹا غصہ

غزل
۔۔۔۔۔
کیسا جنون عشق کے دفتر میں آگیا
سب فائلیں سمیٹ کے دل گھر میں آگیا
اک درد بچ گیا تھا جو سہنے کے واسطے
احساس میرا راہ کے پتھر میں آگیا
تلخی تمھاری ذات کی مشہور ہوگئی
مہندی کا رنگ چھوٹ کے چادر میں آگیا
اس کی ہتھیلیوں سے بھی راحت نہیں ملی
یہ کس طرح کا درد مرے سر میں آگیا
مجھ کو ملا تھا باغ میں اک بولتا گلاب
ہونٹوں سے جب لگایا تو پیکر میں آگیا
پھر آج اک پرندہ ترا شہر چھوڑ کر
دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا

غزل
۔۔۔۔۔
بےاجازت تو بس آتی ہے ہوا کمرے میں
کون رہتاہے ترے ساتھ بتا کمرے میں
روز آتی ہے دبے پاؤں کسی کی خوشبو
چھوڑ جاتی ہے کوئی نام پتا کمرے میں
اپنے حالات بتائیں تو بتائیں کس کو
ایک کُرتا ہے ترے بعد ٹنگا کمرے میں
ہر نئی بات پہ جی بھر کے تماشا کرنا
یہ فرائض تو وہ کرتے ہیں ادا کمرے میں
مجھ سے تُو میری اداسی کا سبب پوچھتاہے
جا کبھی تو مری تصویر لگا کمرے میں

غزل
۔۔۔۔۔
ہر ایک جلوہ نمائی سے جھوٹ بولتے ہیں
ہم اپنے دستِ حنائی سے جھوٹ بولتے ہیں
کسی سوال کی ہوتی نہیں ہے گنجائش
کہ آپ ایسی صفائی سے جھوٹ بولتے ہیں
دہائی دیتے ہیں کیوں مذہبی نظام کی آپ
یہاں ہم اپنے ہی بھائی سے جھوٹ بولتے ہیں
یقیں کو وار کے مایوسیوں کی راہوں میں
کبھی کبھار خدائی سے جھوٹ بولتے ہیں
ذرا سی بات پہ آنچل بھگونے لگتی ہے
یہی سبب ہے کہ مائی سے جھوٹ بولتے ہیںی

Shares: