21 نومبر کو کرم میں پیش آنے والا المناک واقعہ پوری قوم کے لیے ایک صدمے سے کم نہیں تھا۔ اس حادثے کے بعد ہر دل دعاگو تھا کہ حالات پر قابو پا لیا جائے اور نقصان کو کم سے کم رکھا جا سکے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسے حساس موقع پر بھی کچھ افراد نے اپنی ذاتی سیاست چمکانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

پی ٹی آئی سے وابستہ دو بھائی، سابق آئی جی پولیس سید ارشاد حسین اور ریٹائرڈ ائیر مارشل قیصر حسین، نے اس سانحے کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ متاثرہ قافلے کی سیکیورٹی فوج کی گاڑیاں کر رہی تھیں، جنہوں نے مبینہ لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کی جان بچانے میں ناکامی دکھائی۔یہ دعویٰ سراسر جھوٹ اور بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قافلے کی حفاظت پولیس کی گاڑیاں کر رہی تھیں، جبکہ فوج اس مقام سے میلوں دور موجود تھی۔ حادثے کے فوری بعد، فرنٹیئر کور اور فوج نے موقع پر پہنچ کر امدادی کارروائیاں انجام دیں اور صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکا۔

سابق آئی جی سید ارشاد حسین، جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کے پی کے حلقہ 96 سے امیدوار بھی رہ چکے ہیں، کا یہ رویہ ان کی غیر ذمہ داری اور جھوٹ بولنے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایسے حساس مواقع پر جب قوم متحد ہو کر مسائل کا سامنا کرنے کی کوشش کرتی ہے، سیاسی مفادات کے لیے جھوٹ پھیلانا نہایت گھناؤنا عمل ہے۔یہ وقت اتحاد اور حقائق کو سمجھنے کا ہے، نہ کہ افواہوں اور جھوٹ کی بنیاد پر الزام تراشی کا۔ کرم کے عوام اور پاکستانی قوم کو چاہیے کہ ایسی سازشوں سے ہوشیار رہیں اور ان عناصر کو مسترد کریں جو اپنی سیاست کے لیے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر سوشل میڈیا ایکٹوسٹ فرحان ورک کہتے ہیں کہ حالیہ دو ماہ سے پاراچنار اور کرم کی سڑک بند تھی، اختلاف شدت پر تھا۔ اب دو قبائل کی لڑائی کو فوج نے نہیں بلکہ سول انتظامیہ نے جرگے کے ذریعے حل کرنا تھا۔ آپ مجھے بتائیں کہ دو بڑے شہروں کا رابطہ بند ہے، کیا گنڈاپور سمیت کوئی ایک تحریک انصاف کا صوبائی عہدیدار صلح کروانے گیا؟ کسی نے جرگہ بلایا؟اب یہ جرگہ بلانا عطا تارڑ، رانا ثنا، شہباز شریف یا جنرل عاصم منیر کی ذمہ داری تھی یا خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کی؟

صوبائی حکومت کتنی سنجیدہ ہے؟
انکی سنجیدگی کا آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ اتنا افسوس ناک واقعہ ہونے کے باوجود آج بھی وہ عمران خان کے لئے دھرنوں کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ وزیر اعلی سے لیکر صوبائی کابینہ کا ایک بندا وہاں نہیں پہنچا۔ میں آپ سے ابھی کا گنڈاپور کا بیان شئیر کر رہا ہوں تاکہ آپ کو سنجیدگی کے عالم کا اندازہ ہوجائے۔

اب میں آپ سے سوال پوچھتا ہوں!کیا آپ جانتے ہیں خیبر پختونخواہ میں کس کی حکومت ہے؟12 سال سے تحریک انصاف کی،کیا آپ جانتے ہیں خیبر پختونخواہ میں کتنی پولیس ہے؟4 لاکھ،کیا آپ جانتے ہیں کہ اس 4 لاکھ پولیس کو کون چلاتا ہے؟وزیر اعلی خیبر پختونخواہ- انہوں نے پچھلے ماہ قانون بنا کر آئی جی کا رول بھی صفر کردیا ہے۔ایک مرتبہ سیاست کی پٹی اتار کر اپنی عقل سے سوچیں کہ جرگہ کروانا، امن و امان بحال کروانا، صوبے کے عوام کی خفاظت کرنا، مظلوموں کے جنازوں میں شریک ہونا، یہ سب سے زیادہ کس کی ذمہ داری تھی؟

جس بندے کی ذمہ داری تھی وہ اسلام آباد میں حملے پلان کر رہا تھا
اب یہ نمونے لانچ کردیتے ہیں، کبھی آئی جی ارشاد حسین جو خود تحریک انصاف کا امیدوار رہا ہے اور کبھی علامہ راجہ ناصر جو تحریک انصاف کی طفیل سیٹ لے گئے۔بیشرمی کی جو آخری حد ہے، یہ لوگ وہ حد بھی کراس کرچکے ہیں۔ کل یہی لوگ نک دا کوکا پر ناچ ناچ کر اسلام آباد داخل ہونگے جبکہ پاراچنار میں مظلوم رو رہے ہیں!
اب ایک سوال لازمی اٹھنا چاہئے!فوج کیا کر رہی ہے؟فوج نے آپریشن عزم استحکام کا اعلان کیا، جس کو خود تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے رد کیا اور دہشتگردی کے خلاف آپریشن سے روک دیا۔ اب فوج صرف اپنی موجودہ حالت پر قائم ہے جہاں دہشتگرد کھلم کھلا حملے کر رہے ہیں اور پرسوں 12 جوان شہید ہوئے۔فوج اگر خیبر پختون خواہ میں کوئی آپریشن کرنا چاہے تو اسکے لئے آئین کے مطابق صوبائی حکومت کی درخواست موجود ہونا ضروری ہے۔اگر فوج کو ذمہ دار ٹھہرانا ہے تو صوبائی حکومت استعفی دے دے اور ساری ذمہ داری فوج کے حوالے کردیں، پھر فوج ذمہ دار۔12 سال حکومت یہ کریں گے، 4 لاکھ پولیس سے پروٹوکول یہ لیں گے اور صوبے کا امن و امان تباہ ہونے پر ذمہ دار پاک فوج اور وفاق ہونگے؟یہ کہاں کا انصاف ہے؟خدارا اس منافقین کے ٹولے کو پہچانیں۔

کرم واقعہ،ایرانی صدر،ترجمان امریکی سفارتخانہ کی مذمت

کرم واقعہ، خود غرض بیانیے،سچائی کہیں نظر نہیں آئے گی

Shares: