کیا دہشت گرد کلبوشن کو رہا کرنے کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں؟ از قلم ۔۔۔ غنی محمود قصوری
گورنمنٹ آف پاکستان نے کلبوشن یادیو ہندوستانی دہشت گرد کا کیس خود ہائیکورٹ میں لڑنے کا فیصلہ کر لیا
یہ فیصلہ جذبہ خیر سگالی کے تحت کیا گیا ہے واضع رہے رواں سال 29 مئی کو صدر پاکستان عارف علوی نے غیر ملکی قیدیوں کو ملٹری کورٹس سے ہوئی سزا پر اپیل کرنے کیلئے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا بل پاس کیا ہے جس کے تحت کوئی بھی غیر ملکی دہشت گرد،جاسوس جو کہ ملٹری کورٹ سے سزا یافتہ ہے اسے حق مل گیا ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے اندر اپنی سزا کیخلاف درخواست دائر کر سکے واضع رہے کہ اس سے قبل ایسا نا تھا ملٹری کورٹ سے سزا یافتہ قیدی کسی بھی سول کورٹ میں اپنی سزا کو چیلنج نہیں کر سکتے تھے
سوچنے کی بات ہے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ صدر کو غیر ملکی سزا یافتہ دہشت گردوں کی اتنی زیادہ فکر کیوں لاحق ہوئی؟
آخر اتنی خاموشی سے بل کیوں پاس کروا لیا گیا؟
جبکہ عوام کی سہولت کیلئے اور اسلام کے دفاع کیلئے پیش کئے جانے والے درجنوں بل ابھی بھی زیر التواء ہے جبکہ دوسری جانب اپنے ہی ملک کے لوگوں کو کہ جن پر اس ریاست پاکستان کے خلاف کام کرنے کا کوئی گواہ نہیں اور پاکستان کی عوام ان کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے حاضر ہو جاتی ہے جس سے ان کے محب وطن ہونے کا ثبوت ملتا ہے ان افراد کو غیر ملکی دباؤ پر جیلوں میں رکھا گیا ہے اور ان پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کئے گئے ہیں اور الزام یہ لگایا گیا کہ بیرون ملک ان افراد نے آزادی کی تحریک لڑنے والے افراد کی مالی معاونت کی تھی
پچھلے سال بڑے فخر سے خود میڈیا پر وزیراعظم عمران خان نے بتایا کہ آسیہ ملعونہ کو پاکستان سے باہر بھجوانے کیلئے ہم نے مولویوں کو گرفتار کیا جو کہ آسیہ کی رہائی میں رکاوٹ تھے
اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ صدر پاکستان سے منظور شد بل صرف کلبوشن یادیو کی رہائی کی نوید ہے اور اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو ملک میں کوئی بھی محفوظ نا رہے گا خاص کر انٹیلیجنس اداروں کے اہلکاران مذید غیر محفوظ ہو جائینگے
پاک فوج کا کیپٹین قدیر جس اللہ کے شیر نے کلبوشن یادیو کو پکڑا تھا اسے اسی جرم میں بیرونی ایجنسیوں نے شہید کیا کلبوشن کے ہاتھوں پر ہزاروں پاکستانیوں کا خون ہے جس کا اقرار وہ خود اپنے ویڈیو بیان میں کر چکا ہے تو پھر گورنمنٹ کو اس سے اتنی ہمدردی کیوں؟ کیا سابقہ گورنمنٹس کی طرح پی ٹی آئی بھی دباؤ کا شکار ہے؟
کیا خان صاحب کے سارے کے سارے دعوے محض دکھلاوا تھے ؟
سیکیورٹی و انٹیلیجنس ادارے دن رات محنت کرکے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ملک دشمنوں کو پکڑتے ہیں انہیں ملٹری کورٹس سے سزا دلواتے ہیں تاکہ ملک میں امن و امان ہو سکے کسی کا سہاگ،کسی کا لخت جگر پھر کسی کلبوشن جیسے دہشت گرد کی تخریب کاری کا نشانہ نا بن سکے مگر افسوس کہ ریاست مدینہ اور تبدیلی کے دعوے دار ایک دہشت گرد کی رہائی کیلئے خود بل پاس کروا کر خود ہی ہائیکورٹ میں کیس بھی لڑینگے تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ دہشت گردوں تم اپنا کام کرو ہم اپنے بل پاس کروا کر تمہیں رہا کرواتے رہینگے
شاید کہ اگر یہی حالات رہے تو آپریشن فیئر پلے کی ضرورت سخت سے سخت تر ہو جائے گی کیونکہ سب سے پہلے اسلام و پاکستان
کلبوشن نے اسلامی ملک کے اسلامی باشندوں کو شہید کیا ہے
جہاں اپنے لوگوں کو جیلوں میں اور بیرون ملک سے آئے ہزاروں پاکستانی مسلمانوں کے قاتل دہشت گردوں کی رہائی کیلئے حکمران بے تاب ہوں وہاں عوام بھی مایوس ہو جاتی ہے پھر وہاں بیرونی ایجنسیوں کے آلہ کار اپنے ہی لوگ اس لئے بن جاتے ہیں کہ انہیں انصاف نہیں مل سکا لہذہ حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں