کیا یہ کھلی پاکستان دشمنی نہیں ہے؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفیٰ بڈانی
عمران خان جو خود کو پاکستان کا سب سے مقبول لیڈر قرار دیتے ہیں، کیا واقعی ایک قومی رہنما کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں؟ ان کا حالیہ مضمون جو امریکی میگزین ٹائم میں شائع ہوا، پاکستان کے خلاف الزامات کی ایک چارج شیٹ ہے۔
یہ مضمون کس نے لکھا؟ کیسے ٹائم تک پہنچا؟ تحقیق و تفتیش کے کن مراحل سے گزر کر ٹائم اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ واقعی اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی تحریر ہے؟ یہ سب سوالات ہیں لیکن سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ مضمون عمران خان کے نام سے شائع ہوا اور انہوں نے اسے اپنے مضمون کے طور پر قبول کر لیا۔ اس تحریر میں پاکستان کے ریاستی اداروں، جمہوریت اور ملکی معیشت کے بارے میں جو منفی بیانیہ پیش کیا گیا ہے وہ کسی قومی لیڈر کا نہیں بلکہ ایک دشمن کے ایجنڈے پر چلنے والے شخص کا معلوم ہوتا ہے۔
عمران خان نے مضمون میں یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان میں جمہوریت خطرے میں ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ ان کے مطابق خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی نے دوبارہ سر اٹھا لیا ہے کیونکہ فوج کے وسائل پی ٹی آئی کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔ وہ اس حد تک چلے گئے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو براہ راست نشانہ بنایا اور کہا کہ انہیں فوج کو آئینی حدود میں رکھنے کا احترام کرنا چاہیے۔ یہ بات حیران کن ہے کہ ایک شخص جو خود وزیراعظم رہ چکا ہو وہ ملک کے سب سے اہم قومی ادارے کو کمزور کرنے کی کوشش کرے۔
اس کے علاوہ عمران خان نے معیشت کے بحران کا ذمہ دار بھی اپنی حکومت کے خاتمے کو ٹھہرایا اور تاثر دیا کہ پاکستان کو جان بوجھ کر مالی مشکلات میں دھکیلا جا رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود آئی ایم ایف سے پاکستان کے خلاف شکایات کرتے رہے اور مالی امداد رکوانے کے لیے خط لکھتے رہے۔ فروری 2024 میں انہوں نے آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر جنرل کو براہ راست خط لکھ کر پاکستان کی امداد کو انتخابات کے آڈٹ سے مشروط کرنے کا مطالبہ کیا۔ مارچ 2024 میں ان کی جماعت کے کارکنوں نے واشنگٹن میں آئی ایم ایف ہیڈکوارٹر کے باہر احتجاج کیا تاکہ عالمی ادارے پر پاکستان کی امداد بند کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی قومی رہنما جو کبھی وزیراعظم رہ چکا ہو، اپنے ملک کو معاشی تباہی کی طرف دھکیلنے کے لیے عالمی طاقتوں کو مداخلت پر اُکسا سکتا ہے؟
عمران خان نے اس مضمون میں پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سطح پر ایک بیانیہ ترتیب دینے کی کوشش کی۔ انہوں نے لکھا کہ یورپی یونین پاکستان کی برآمدات پر دی جانے والی محصولات کی رعایت واپس لے سکتی ہے۔ وہ عالمی برادری کو پاکستان کی داخلی سیاست میں مداخلت کرنے پر اُکسا رہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست بننے جا رہا ہے۔ وہی عمران خان جو پہلے امریکہ کو پاکستان کی سیاست میں مداخلت کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے، اب اسی امریکہ کے سامنے بصد عاجزی درخواست گزار ہیں کہ پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے۔ یہ منافقت اور خودغرضی کی انتہا ہے۔
پاکستان کے ہر ادارے کو کمزور کرنے اور اسے عالمی سطح پر متنازع بنانے کی کوشش عمران خان کی سیاست کا بنیادی ہتھیار بن چکی ہے۔ جمہوریت، انسانی حقوق، معیشت، قومی سلامتییہ سب کچھ داؤ پر لگایا جا چکا ہے۔ وہ عالمی سطح پر پاکستان کا چہرہ مسخ کر رہے ہیں تاکہ اپنے لیے ہمدردی حاصل کر سکیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ خود کو پارسا اور محب وطن کہلوانا چاہتے ہیں لیکن ان کے اقدامات کا نتیجہ ملک کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہو رہا ہے۔
عمران خان کو جیل میں وہ سہولیات میسر ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی قیدی کو حاصل نہیں ہوئیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ خود کو ایک سیاسی شہید کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہی عمران خان جو رعونت کے ساتھ کہتے تھے کہ میں سب کو رلاؤں گا، آج خود مقافاتِ عمل کا شکار ہیں۔ وہی عمران خان جو نواز شریف کے کمرے سے اے سی اتروا دینے کی بات کرتے تھے، آج خود جیل کی دیواروں کے پیچھے ہیں۔
یہ سوال اب ہر پاکستانی کو خود سے کرنا ہوگا کہ کیا یہی قومی لیڈر ہوتا ہے؟ کیا ایک ایسا شخص جو اپنے ذاتی اقتدار کے لیے پاکستان کے ہر ادارے کو بدنام کرے، عالمی طاقتوں کو مداخلت کی دعوت دے اور اپنی سیاسی بقا کے لیے پاکستان کے خلاف محاذ کھول دے، کیا وہ واقعی ایک قومی رہنما کہلانے کے لائق ہے؟ عمران خان نے اپنی ذات کے لیے پاکستان کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے ہیں۔ اگر یہ پاکستان دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟