لبنان کی حکومت نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج کے حالیہ حملوں میں صیدون شہر میں تقریباً 27 افراد اور بالبک حمل نامی شہر میں 21 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے نام پر شہری آبادی پر بمباری کی گئی ہے۔ شام نے لبنان کو امدادی سامان کی ایک بڑی کھیپ بھیجی ہے، جبکہ جنوبی لبنان اور دارالحکومت بیروت کے نواح میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر بمباری کے بعد لبنان سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ حملے تقریباً بارہ دن سے جاری ہیں، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر سویلین ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے، لیکن اس کا کہنا ہے کہ حزب اللہ اپنے ٹھکانے سویلین آبادی میں رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے سویلین ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس تناظر میں، فرانس کے وزیرِ خارجہ ژاں نوئل بیرٹ بیروت کا دورہ کرنے والے ہیں، جبکہ یورپی ممالک نے خطے کی صورتحال کے پیش نظر سفارتی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں، کیونکہ مکمل جنگ کا خطرہ موجود ہے۔ روسی وزیرِ اعظم میخائل مشوسٹین پیر کو ایران پہنچ رہے ہیں، جہاں وہ صدر مسعود پزشکیان سے ملاقات کریں گے۔ اس دورے میں دوطرفہ تعلقات پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ خطے کی صورتحال پر بھی بات چیت کی توقع ہے۔لبنان کے وزیرِ اطلاعات زیاد ماکری نے اتوار کو کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ کشیدگی میں کمی اور جنگ بندی کے حصول کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لبنانی حکومت ہر صورت جنگ بندی چاہتی ہے، اور بات چیت میں فوری کامیابی کی توقع نہیں ہے۔ زیاد ماکری نے مزید کہا کہ موجودہ صورتحال بہت نازک ہے اور کوششیں جاری ہیں تاکہ لڑائی میں مزید اضافہ نہ ہو اور قتل و غارت کا دائرہ وسیع نہ ہو۔