لاہور ہائی کورٹ بار اور لاہور بار نے ججز سنیارٹی کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
دونوں بارز نے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف الگ الگ انٹراکورٹ اپیلیں دائر کر دیں، اپیلوں میں پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ،اپیلوں پر فیصلے تک پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے اقدامات معطل کرنے کی استدعا بھی کی گئی اپیلوں میں موقف اپنایا گیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین اور طے شدہ عدالتی اصولوں کیخلاف ہے، ججز کی سنیارٹی طے کرنے کا مسلمہ طریقہ کار موجود ہے،صدر مملکت کو سنیارٹی طے کرنے کی ہدایت کرنے کی آئین میں گنجائش نہیں۔
میلبرن: طیارے میں سانپ کی موجودگی کے باعث پرواز تاخیر کا شکار
واضح رہے کہ جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ نے تین ججز کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں منتقلی کو آئینی و قانونی قرار دیتے ہوئے، ججز کی طرف سے دائر کردہ درخواستوں کو تین دو کے تناسب سے مسترد کر دیا تھا فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت صدر مملکت کو ججز کی منتقلی کا اختیار حاصل ہے اور یہ تقرری کے اختیار سے جداگانہ معاملہ ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں صدر مملکت نے 29 جون کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر کو اس عدالت کا سینئر ترین جج قرار دیا اور ان سمیت دو دیگر ججز کے تبادلوں کو مستقل قرار دیا تھا۔ اس کے بعد یکم جولائی کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے جسٹس سرفراز ڈوگر کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ، جسٹس جنید غفار کو چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ، جسٹس عتیق شاہ کو چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اور جسٹس روزی خان کو چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تعینات کرنے کی منظوری دے دی تھی۔
حکومتی اور دفاعی اداروں پر بھارتی سائبر حملوں کا خدشہ، سائبر سیکیورٹی ایڈوائزری جاری
ان تعیناتیوں کی منظوری کے بعد 7 جولائی کو وزارت قانون کی جانب سے باقاعدہ نوٹیفیکیشنز جاری کیے گئے، اور 8 جولائی کو چاروں ہائیکورٹس کے نئے چیف جسٹس صاحبان نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا۔