لاکھوں چراغ لا کہ…!!! تحریر:جویریہ چوہدری

لاکھوں چراغ لا کہ…!!!

فراغت کے یہ لمحات…فرصت کی یہ ساعتیں…
اپنوں کے سنگ بیتتی یہ جاں فزا گھڑیاں…
اک گہرے سکوں کی لپٹ میں گزرتے یہ شب و روز…
اردو گرد شور کی آلودگی سے پاک یہ دن…
کسی گہری سوچ و عمل کے بھی متقاضی ہیں…
اذان کی دلسوزصدا سے وقتِ فجر میری آنکھ کھلی…دعا پڑھنے کے بعد اذان کا جواب دینا شروع کیا…
ویسے کیا روح پرور لمحات ہوتے ہیں کہ جب اک گہری نیند سے بیدار ہو کر رب کی کبریائی کی صدا سماعت کے دریچوں سے ٹکراتی ہے تو روح میں اک سکوں کی لہر اُتر جاتی ہے…
ویسے اکثر ان لمحات میں اذان کی پر سوز پکار کا جواب دیتے ہوئے میری آنکھیں چھلک بھی پڑتی ہیں…
نماز سے فارغ ہوتے ہی جب قریب کے درختوں کی شاخوں کی مکیں چڑیاں اک خاص ترنم سے چہچہاہٹ کا سماں باندھتی ہیں تو رب کی تسبیح کا اور شدت سے اندازہ ہونے لگتا ہے کہ:
"زمین و آسمان کی تمام مخلوقات اس کی تسبیح کرتی ہیں مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے…”(النور)۔
ہم انسان اکثر سستی کی ردا اوڑھے دیر،سویر کے مرتکب بھی ہو جاتے ہیں مگر کبھی اوقاتِ سحر میں مرغانِ سحر کو سستی کرتے دیکھا ہے ؟ نہیں بلکہ وہ ان لمحات کے آنے میں بانگ دینے کو مچل رہے ہوتے ہیں…
ہم آجکل جس وبا کے اثرات سے بچنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں اس میں سرِ فہرست صفائی ستھرائی کا اہتمام ہے…
صبح جاگتے ہی جب ہاتھ،منہ ناک، کان تک کی صفائی کے بعد جب ہم خالقِ کائنات کی بارگاہ میں کھڑے ہوتے ہیں تو اُس سجدے کی لذت کا کیا ہی مزہ اور اس پیشانی کی کیا ہی شان ہوتی ہے؟
عافیت و کامیابی کی دعاؤں سے مزین عبادت کے بعد ہم ایک جسمانی و روحانی طاقت کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ہمارا امیون سسٹم بہتر محسوس کرتا ہے…
تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ان ایام میں ہم اگر گھروں میں قید بھی ہیں تو ان لمحات کی گرانی میں خیر کو تلاش کرنے والے بنیں…
اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے بنیں…
جہاں ہاتھ منہ دھونے کی بات ہے تو ہم پانچ مرتبہ بآسانی یہ کام کر سکتے ہیں،پھر کوئی بھی کام کرنے کے بعد ہاتھ صابن سے دھونا،تو جانے کتنی بار یہ کام دہرانے کے ہم آسانی سے عادی ہو سکتے ہیں…!!!
اور اگر پہلے کبھی مصروفیات اس کام میں تساہل کا شکار کر بھی دیتی تھیں تو ہم اس ریفریش کورس میں اپنی غلطیوں کو دور کر کے اصلاح کر سکتے ہیں…
قرآن مجید ہمارے لیئے ضابطۂ حیات ہے ہم اس سے ٹوٹے تعلق کو ان دنوں میں بحال کر کے زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں…
مطالعہ کے لیئے چونکہ ذہنی یکسوئی بے حد ضروری ہے تو اس وقت کو ترجمہ و تفسیر سمجھنے میں گزار سکتے ہیں…
اسی طرح کتاب کی دنیا سے ٹوٹ گئے رابطے کو پھر سے استوار کر سکتے ہیں…
معلوماتی اور تاریخی و ادبی کتابیں ذہنی بالیدگی اور تفریح کا بہترین ذریعہ ہیں…اس گھر میں آئے وقت کو یوں بہترین انداز میں گزارہ جا سکتا ہے…
اگر چہ ہم ایک کلک پر بہت سی چیزیں اک نظر میں دیکھ کر گزر جاتے ہیں مگر اس کے ہمارے ذہنوں میں بیٹھنے کے چانسز اس سے کہیں کم ہوتے ہیں جو ہم حاضر دماغی سے چاہے ایک دو اوراق ہی کیوں نہیں پڑھ لیتے…اور جو ہمارے لیئے اتھینٹک حوالے کا بھی کام کر جاتے ہیں…
اسی طرح مرد حضرات جو اکثر وقت گھروں باہر ہی گزارتے ہیں…
یہ وقت گھر میں گزارنا مشکل محسوس ہوتا ہے ابھی پچھلے دنوں خبر پڑھی کہ گھریلو تشدد میں اضافہ کا رجحان،عورتوں اور بچوں کے ساتھ جھگڑوں کی وجہ سے ہیلپ لائن قائم…وغیرہ
تو بحیثیت مسلمان ہمیں پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کی کوشش کرنی چاہیئے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی گھریلو مصروفیات کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے کہا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم گھر والوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو فوراً نماز کے لیئے چلے جاتے۔(صحیح بخاری)۔
مرد حضرات کو چاہیئے کہ وہ ان لمحات میں عورتوں کی مدد کریں،ان کے کاموں میں ان کا ساتھ دیں
وہ کپڑے دھوتی ہیں تو مرد پھیلا دیں…
برتن دھل جائیں تو اُٹھا کر سنبھال دیں…
صفائی کے معاملے میں مدد کریں اور اپنے گھروں سے اس کام کا آغاز کریں تاکہ صفائی مہم ہماری قومی سوچ کی شکل اختیار کرے…
جانتے ہو ناں کہ قومیں افراد سے بنتی ہیں اور فرد اپنی ذات اور گلی محلے سے اپنی موومنٹ کا آغاز کرتے ہیں…اور پھر قوم کی پہچان بنتے ہیں…
اس بیماری کے صرف ایک ہی رُخ پر واویلا کرنے کی بجائے ہر زاویے سے اصلاح کی طرف قدم بڑھائے جائیں اپنوں کے ساتھ بیٹھ کر بیتے اس وقت کو یادگار بنانے کی کوشش کرنی ہے…اپنی عبادات اور معاملات کی اصلاح کے ساتھ ہر لمحہ،ہر آن،نئی شان سے چراغ جلانے کی کوشش کرنی ہے تاکہ جب ہم باہر نکلیں تو بلاؤں اور وباؤں سے ٹکراتی اور کامیابی سے صبر و استقامت کے ساتھ ہم آغوش ہوتی قوم کے لقب سے نوازے جائیں…
اور اپنی تاریخ پر فخر ہمارا طرہ امتیاز رہے…ہم ایک سنوری ہوئی،دردِ دل رکھنے والی اور اپنی ذات پر انسانیت کو ترجیح دینے والی قوم کی صورت اُبھریں…
مرے دیس کے غریب کا یہ وقت بخیر و عافیت گزرے اور ہوا کے جھونکے کسی طوفاں میں نہ بدلنے پائیں…!!!
ہمیں اپنی اپنی ذمہ داری کا چراغ جلائے رکھنا ہے…
لاکھوں چراغ لا کہ
ہوا تیز ہے بہت…
صرف اک دیا جلا کر
سرِ رہ گزر نہ جا…
صرف دوسروں کو درس دے کر آگے بڑھ جانے اور ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ سے آنکھیں بچا جانا اجتماعی مسائل کو کم نہیں کر سکتے…
اور یاد رکھیئے کہ:
ہر عسر کے بعد یسر…
ہر تنگی کے بعد آسانی…
ہر شدت کے بعد سکوں…
اور ہر شب کے بعد سحر ہونا ایک یقینی اور فطری امر ہے۔
بس ہمیں…:
لینا ہے جائزہ ہر رُخ سے تصویر کا…!!!!!
کہ اس پُر اسرار سکون کے بعد کا جو منظر بنے وہ اتحاد و یکجہتی کی چاشنی سے گندھی مسکراہٹوں سے سجا خاموش مگر دیرپا پرسکون معاشرہ ہو…!!!!!!

Comments are closed.