لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کی حقیقت
تحریر : وحید گل
پاکستان گزشتہ کچھ برسوں سے لاپتہ افراد سے متعلق خبروں کی وجہ سے شہ سرخیوں کی زینت بنا رہا ہے۔ لوگوں کا لاپتہ ہونا یا اُن کی جبری گمشدگیوں کے کیسز کا سامنے آنا ، پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ساکھ پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ برسوں بعد بھی یہ معاملہ آج بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر حل طلب ہی نظر آتا ہے۔ نیشنل کرائم انفارمیشن سنٹر (NCIC) کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق صرف امریکہ میں 2021 میں 521,705 افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملی اسی طرح دی سنڈے گارڈین کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر گھنٹے میں 88 بچے، خواتین اور مرد لاپتہ ہوتے ہیں ہر روز 2,130 اور ہر ماہ 64,851 بچے، خواتین اور مرد لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ گو کہ یہ تعداد پاکستان میں موجود اعداد و شمار کی نسبت بہت بڑی ہے لیکن ہماری آج کی بحث پاکستان سے متعلق ہے
2013ء میں ماما قدیر نامی ایک بلوچ نے لاپتہ افراد کے معاملے پر احتجاج کرتے ہوئے چند بلوچوں کے ہمراہ (جن میں عورتیں بھی شامل تھیں) بلوچستان سے اسلام آباد تک 2,000 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کیا۔ علاوہ ازیں آئے دن نیوز چینلز پر لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق خبریں گردش میں رہیں۔ کچھ عرصہ بعد جب کھوج لگائی گئی تو حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے۔ پاکستان میں سرگرم کالعدم تنظیموں میں شامل افراد کی ایک بڑی تعداد بھی جبری گمشدگیوں کے کھاتے میں ڈال دی گئی تھی۔ حالانکہ یہ افراد خالصتاً رضاکارانہ جذبے کے تحت غیر قانونی طور پر مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے بلوچستان جا پہنچتے تھے، تاکہ وہاں دشمن ممالک کے قائم کردہ خفیہ کیمپوں میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کر سکیں۔ آفتاب یوسف کی اگر مثال لی جائے جو ماما قدیر کی کے ہر دھرنے میں پایا جاتا تھا اور گمشدہ لوگوں کیلئے آواز بلند کرتا تھا دراصل وہ خود بی ایل اے کیلئے کام کرتا تھا اور سینکڑوں سیکیور اہلکاروں کو شہید کرنے میں ملوث تھا جو جون 2021میں سیکیورٹی فورسز کی کاروائی میں مارا گیا جسکی تصدیق خود دہشتگرد تنظیم بی ایل نے کی۔
چونکہ پاک افغان سرحد کی مجموعی لمبائی 2611 کلومیٹر ہے(جس میں خیبرپختونخوا کے ساتھ متصل افغان سرحد کی طوالت 1229کلومیٹر ہے) لہٰذا اُس وقت در اندازی کو روکنے والی باڑ نہ ہونے کے باعث لوگوں کا غیر قانونی پر پر آنا جانا کچھ خاص مشکل نہ تھا۔ یوں بھی یہاں سے آنے جانے والےافراد زیادہ تر یا تو جرائم پیشہ ہوتے تھے یا پھر جہالت، ذہنی پسماندگی اور دیگرمحرومیوں کے باعث شرپسند عناصر افراد کا آسان ہدف بن کر کالعدم تنظیموں میں شمولیت اختیار کر لیتے تھے۔ یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر لاپتہ افراد کے معاملے میں ایکٹو اکاؤنٹس کوسپورٹ کہیں اور سے نہیں بلکہ زیادہ تر ہمسایہ ملک ہندوستان سے مل رہی ہوتی ہے۔
ایک عام آدمی کے پاس بمشکل دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے لیے رقم ہوتی ہے جبکہ لاپتہ افراد کے لیے تگ و دو کرنے والے یہ لوگ شہروں شہروں نہیں بلکہ ملکوں ملکوں سفر کرتے ہیں، وہاں رہائش اختیار کرتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ وہ میڈیا جسے رتی بھر بھی فرق نہیں پڑتا کہ دنیا میں کیا کچھ رونما ہو رہا ہے، وہ ان افراد کو بنا کچھ لیے دئیے کوریج دے رہا ہے۔ سوالات تو بہت ہیں لیکں جواب ایک بھی نہیں۔۔۔
پاکستان میں برسوں یہی پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا کہ جبری گمشدگی کے باعث لاکھوں افراد غائب ہیں تاہم جب بھی ان کی تفصیلات طلب کی گئیں تو پہلے بہانے سے تفصیلات کی فراہمی سے گریز کیا جاتا رہا۔ بعد ازاں محض چند سو افراد کی لسٹ سامنے لائی گئی جس کے بعد متعدد افراد بازیاب بھی ہوئے لیکن باقی مبینہ گمشدہ افراد کی تفصیلات کہاں ہیں، کچھ معلوم نہیں۔
آخر لاپتہ افراد سے متعلق آواز اٹھانے والوں سے جب سوالات کیے جاتے ہیں تو وہ جواب دینے سے کنی کیوں کترا جاتے ہیں؟ لاپتہ افراد سے متعلق ایک عالمی رپورٹ (مطبوعہ 31 دسمبر 2021) کے مطابق امریکا میں لاپتہ افراد کے 93718 فعال کیسزرپورٹ ہوئے، برطانیہ میں 241064 کیسز، جرمنی میں 11000 کیسز، ہندوستان میں 347524 کیسزجبکہ نیپال میں 10418 اور پاکستان میں 2210 کیسز تھے۔ یہ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ لاپتہ افراد ایک عالمی مسئلہ (Global Phenomenon) ہے اور پاکستان بھی اس مسئلے سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ تاہم گمشدہ افراد کی تعداد سے متعلق حد درجہ مبالغہ آرائی سے کام لیا جا رہا ہے۔ ColoED کے ساتھ رجسٹرڈ کیسز میں 9035 لاپتہ افراد کے اعداد و شمار ظاہر کیے گئے ہیں، ان میں سے بھی 70 فیصد سے زیادہ کیسز حل ہو چکے ہیں اور 25 فیصد عنقریب نمٹ جانے کو ہیں۔
یہاں یہ بات قابلِ فہم ہے کہ جو لوگ گھریلو مسائل، ذاتی لڑائیوں یا اپنا کوئی مطالبہ منوانے کی خاطر گھر والوں کو دباؤ میں لانے کو، اپنی مرضی سے گھر سے جاتے ہیں، ان کے لاپتہ ہونے کو جبری گمشدگی سے نتھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی گمشدگی صرف اسی صورت میں "جبری گمشدگی” کہلائے گی جب ریاست نے اِن افراد کو اُٹھایا ہو مگر اُن کی گرفتاری کا اعلان نہ کر کے اسے مخفی رکھا گیا ہو۔
پاکستان میں توقع سے بڑھ کر پیار ملا، بھارتی برج ٹیم کے کپتان کی پریس کانفرنس
برج فیڈریشن آف ایشیا اینڈ مڈل ایسٹ چیمپئن شپ، کھلاڑیوں کا شاہی قلعہ کا دورہ
برج گیم میں جوا اور پیسے نہیں لگتے:برج پلیئرغیاث ملک ، جہانگیر اور سعید اختر
برج فیڈریشن آف ایشیا اینڈ مڈل ایسٹ چیمپئن شپ، بھارتی ٹیم لاہور پہنچ گئی
عمران خان کے فوج اور اُس کی قیادت پر انتہائی غلط اور بھونڈے الزامات پر ریٹائرڈ فوجی سامنے آ گئے۔
ریاست مخالف پروپیگنڈے کوبرداشت کریں گے نہ جھکیں گے۔